علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق رکنِ پارلیمان نے بتایا ہے کہ گزشتہ چار روز سے جاری جھڑپوں میں اب تک 28 افراد مارے جاچکے ہیں جن میں 22 عام شہری ہیں۔
واشنگٹن —
خانہ جنگی کا شکار افریقی ملک جمہوریہ وسطی افریقہ میں عیسائی اور مسلمان ملیشیاؤں کے درمیان ہونے والی تازہ جھڑپوں میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق تشدد کے تازہ واقعات دارالحکومت بنگوئی سے 300 کلومیٹر شمال میں واقع ملک کے وسطی قصبے مالا میں پیش آئے ہیں۔
قصبے کے رہائشیوں نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ جھڑپوں کا سلسلہ جمعرات کو عیسائی ملیشیا کے جنگجووں کی جانب سے سابق مسلمان باغیوں کے زیرِ انتظام گوداموں سے خوراک لوٹنے کے بعد شروع ہوا۔
علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق رکنِ پارلیمان نے بتایا ہے کہ گزشتہ چار روز سے جاری جھڑپوں میں اب تک 28 افراد مارے جاچکے ہیں جن میں 22 عام شہری ہیں۔
سابق رکنِ پارلیمان کے مطابق علاقہ رہائشیوں نے انہیں بتایا ہے کہ قصبے کی گلیوں میں لاشیں بکھری ہوئی ہیں جب کہ لڑائی کے باعث زخمیوں کو طبی امداد بھی نہیں دی جاسکی ہے۔
وسطی افریقہ کے اس ملک میں 2012ء کے اواخر میں مسلمان باغیوں نے مرکزی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد گزشتہ سال کے اختتام پر عیسائی ملیشیاؤں نے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کردی تھیں جوتاحال جاری ہیں۔
فریقین کے درمیان لڑائی میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ کئی علاقے مسلمانوں سے خالی ہوگئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے ان حملوں کو مسلمانوں کی نسل کشی کے مترادف قرار دیا ہے۔
مسلمان آبادیوں پر عیسائی جنگجووں کے حملوں کے باعث اب تک آٹھ لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں جب کہ 46 لاکھ آبادی کے اس ملک کی نصف سے زائد آبادی بنیادی انسانی ضروریات تک رسائی کے لیے بھی عالمی امداد پر انحصار کر رہی ہے۔
جمہوریہ وسطی افریقہ میں اس وقت افریقی یونین کے چھ ہزار فوجیوں کے علاوہ فرانس کے دو ہزار فوجی اہلکار بھی موجود ہیں جو دسمبر سے جاری نسلی فسادات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں تاحال اس میں کامیابی نہیں ہوسکی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق تشدد کے تازہ واقعات دارالحکومت بنگوئی سے 300 کلومیٹر شمال میں واقع ملک کے وسطی قصبے مالا میں پیش آئے ہیں۔
قصبے کے رہائشیوں نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ جھڑپوں کا سلسلہ جمعرات کو عیسائی ملیشیا کے جنگجووں کی جانب سے سابق مسلمان باغیوں کے زیرِ انتظام گوداموں سے خوراک لوٹنے کے بعد شروع ہوا۔
علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق رکنِ پارلیمان نے بتایا ہے کہ گزشتہ چار روز سے جاری جھڑپوں میں اب تک 28 افراد مارے جاچکے ہیں جن میں 22 عام شہری ہیں۔
سابق رکنِ پارلیمان کے مطابق علاقہ رہائشیوں نے انہیں بتایا ہے کہ قصبے کی گلیوں میں لاشیں بکھری ہوئی ہیں جب کہ لڑائی کے باعث زخمیوں کو طبی امداد بھی نہیں دی جاسکی ہے۔
وسطی افریقہ کے اس ملک میں 2012ء کے اواخر میں مسلمان باغیوں نے مرکزی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد گزشتہ سال کے اختتام پر عیسائی ملیشیاؤں نے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کردی تھیں جوتاحال جاری ہیں۔
فریقین کے درمیان لڑائی میں اب تک ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ کئی علاقے مسلمانوں سے خالی ہوگئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے ان حملوں کو مسلمانوں کی نسل کشی کے مترادف قرار دیا ہے۔
مسلمان آبادیوں پر عیسائی جنگجووں کے حملوں کے باعث اب تک آٹھ لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں جب کہ 46 لاکھ آبادی کے اس ملک کی نصف سے زائد آبادی بنیادی انسانی ضروریات تک رسائی کے لیے بھی عالمی امداد پر انحصار کر رہی ہے۔
جمہوریہ وسطی افریقہ میں اس وقت افریقی یونین کے چھ ہزار فوجیوں کے علاوہ فرانس کے دو ہزار فوجی اہلکار بھی موجود ہیں جو دسمبر سے جاری نسلی فسادات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں تاحال اس میں کامیابی نہیں ہوسکی ہے۔