ایران شام میں مستقل قدم جمانے کا خواہاں: نیتن یاہو

بقول اُن کے، ''مستقبل کے امن سمجھوتے کے ضابطہ کار کے تحت یا اس کے بغیر، ایران کوشاں ہے کہ کسی طور پر شام میں اپنے مستقل قدم جمائے، جو فوجی صورت میں یا پھر بحری فوج کی موجودگی میں ہو سکتے ہیں، اور رفتہ رفتہ گولان کی پہاڑی چوٹیوں سے ہمارے خلاف محاذ کھولنے کی کوشش کی جا سکتی ہے''

وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ ماسکو میں جمعرات کے روز روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کریں گے، جس دوران وہ ایران کی جانب سے اُن مبینہ کوششوں پر آواز بلند کریں گے، جن میں، بقول اُن کے، ایران شام میں فوجی اعتبار سے مستقل قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔

نیتن یاہو نے اتوار کے روز اپنی کابینہ کے ارکان سے بات کرتے ہوئے، جسے براہ راست نشر کیا گیا، کہا کہ ''مستقبل کے امن سمجھوتے کے ضابطہ کار کے تحت یا اس کے بغیر، ایران کوشاں ہے کہ کسی طور پر شام میں اپنے مستقل قدم جمائے، جو فوجی صورت میں یا پھر بحری فوج کی موجودگی میں ہو سکتے ہیں، اور رفتہ رفتہ گولان کی پہاڑی چوٹیوں سے ہمارے خلاف محاذ کھولنے کی کوشش کی جا سکتی ہے''۔

اُنھوں نے کہا کہ ''میں اِس امکان سے متعلق صدر پیوٹن سے اظہار خیال کروں گا''۔ ایران اسرائیل کا چوٹی کا دشمن شمار ہوتا ہے جو شامی صدر بشار الاسد کا قریبی حامی ہے، جسے وہ میلیشیا کے لڑاکے فراہم کرکے مدد کر رہا ہے۔

روس بھی اسد کا حامی ہے، جسے شام کے مستقبل کے بارے میں سمجھوتا طے کرنے کے حوالے سے طاقت کے توازن کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ جمعے کے روز جنیوا میں ایک سال کے وقفے کے بعد اقوام متحدہ کی قیادت میں پہلے شام امن مذاکرات منعقد ہوئے، جو بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوگئے۔

چھ برس سے جاری شامی تنازع کے دوران اسرائیلی قائدین خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی نشاندہی کرتے رہے ہیں، چاہے پاسدارانِ انقلاب کی افواج یا شیعہ میلیشیا کی صورت میں، خاص طور پر حزب اللہ کو مدد فراہم کرنے کے ذریعے۔

شیعہ اکثریت والے ایران کا کہنا ہے کہ اُس کی افواج شام میں شیعہ زیارات کا دفاع کر رہی ہیں۔

تاہم، ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف نے کہا ہے کہ نومبر میں اسلامی جمہوریہ یمن میں یا پھر آئندہ شام میں اپنے بحری اڈے قائم کر سکتا ہے۔

گذشتہ سال، اسرائیلی امورِ خارجہ کے ایک ماہر اور دفاعی کمیٹی کے رُکن، اَوی ڈِچر نے کہا تھا کہ ماضی میں ایران کئی بار شامی گولان ہائیٹس پر اپنی فوجیں بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے، جو اُس علاقے میں واقع ہیں جس پر 1967ء کی مشرق وسطیٰ کی لڑائی کے دوران اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔