|
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن اور ممکنہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے امکان پر تبادلہ خیال کے لیے الگ الگ ملاقات کی۔
ہیریس نے اسرائیلی رہنما کے ساتھ "بے تکلف اور تعمیری ملاقات" کے بعد اپنے ریمارکس میں کہا کہ وہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتی ہیں۔
انہوں نے غزہ میں "تباہ کن" انسانی صورتحال اور تنازعہ میں ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "ہم ان سانحات سے منہ نہیں موڑ سکتے۔
ہیرس نے غزہ میں جلد جنگ بندی کے لیے صدر بائیڈن کے مطالبے کا اعادہ کیا، کم از کم اتنے وقت کے لیے کہ غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد زیادہ کی جاسکے اور ان یرغمالوں کو حماس کے قبضے سے چھڑایا جا سکے جو خطرے میں ہیں۔
اس سے چند گھنٹے قبل ،صدر جو بائیڈن نے نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت میں غزہ میں 9 ماہ سے جاری جنگ میں جنگ بندی پر زور دیا۔ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے چند دن بعد جب بائیڈن نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور اس کی حمایت کا اظہار کیا تھا، اس کے بعد سے یہ دونوں رہنماؤں کے درمیا ن پہلی بالمشافہ ملاقات تھی ۔
ایک امریکی عہدے دار نے کہا ہے کہ ہیرس سے، جو جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی امریکہ کی ایک اولین ممتاز رہنما ہیں، توقع کی گئی تھی کہ وہ فلسطینیوں کی حالت زار پر مرکوز رہتے ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے اپنے حق دفاع کی حمایت کرتے ہوئے، انتظامیہ کے موقف کی پوری طرح سے پیروی کریں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان، جن کے پاس غزہ کے محصور علاقے کا کنٹرول ہے، جنگ بندی کے سلسلے میں اختلافات باقی ہیں لیکن "ہم پہلے کے مقابلے میں اب کسی معاہدے کے زیادہ قریب ہیں۔"
کربی نے کہا کہ،’’ دونوں فریقوں کو سمجھوتہ کرنا ہو گا۔‘‘
ہیرس نے نیتن یاہو کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا "ہمارے پاس بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہے،" یہ تقریباً وہی الفاظ تھے جو بائیڈن نے دن کے شروع میں اسرائیلی رہنما سے ایک الگ ملاقات کے وقت کہے تھے۔
نیتن یاہو نے کہا ،ہمارے پاس بات کرنے کو واقعی بہت کچھ ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میٹ ملر نے کہا: " میرا خیال ہے کہ اس ملاقات میں امریکی جانب سے پیغام یہ ہو گا کہ ہمیں اس معاہدے کو اب طے کر لینا چاہیے۔"
یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکی سیاست ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے ۔ اتوار کے روز، 81 سالہ بائیڈن ساتھی ڈیموکریٹس کے دباؤ میں امریکی صدارتی دوڑ سے دستبردار ہو گئے تھے اور پارٹی کی 2024 کی صدارتی نامزدگی کے لیے کاملا ہیرس کی حمایت کی تھی۔
نیتن یاہو نے بائیڈن سے کہا کہ "میں 50 سال کی عوامی خدمت اور اسرائیل کی ریاست کے لیے 50 سال کی حمایت کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔"
جمعرات کو مظاہرین سے تحفط کے لیے وائٹ ہاؤس کے گرد اضافی حفاظتی باڑ لگا دی گئی تھی۔
SEE ALSO: اسرائیلی وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکہ دونوں ممالک میں تعلقات کے لیے کتنا اہم؟اس سے قبل بائیڈن اور نیتن یاہو نے حماس کے پاس قید امریکی یرغمالوں کے خاندانوں سے ملاقات کی تھی۔
خاندانوں کے نمائندوں نے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ وہ جنگ بندی کے کسی ایسے معاہدے کی امید کر رہے ہیں جس کے تحت یرغمالوں کو گھر واپس لایا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا بائیڈن، جو اب دوسری مدت کے لیے صدر نہیں ہوں گے، یا ہیرس، جو ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف صدارتی الیکشن میں جانا چاہتی ہیں، نیتن یاہو پر کوئی اثر ڈال سکتے ہیں۔
نیتن یاہو جمعے کو ٹرمپ سے ملاقات کے لیے فلوریڈا جائیں گے۔
اسرائیل کے معاملے میں کاملا ہیرس، اگرچہ بائیڈن کے ساتھ منسلک ہیں، لیکن انہوں نے نسبتاً سخت لہجہ اختیار کیا ہے۔
(اس خبر مین تفصیل اے پی اور رائٹرز سے لی گئی)