چرم نے آٹھ ہزار آٹھ سو پچاس میٹر دنیا کی بلند ترین چوٹی کو 12 مئی 2012ء کو سر کیا جس کے بعد وہ واپس اپنے بیس کیمپ پہنچیں جہاں دو روز آرام کرکے ایک ہفتے کے بعد 19 مئی کو ایک دوبارہ ’ماؤنٹ ایورسٹ‘ کی چوٹی پرپہنچیں۔
اسلام آباد —
نیپال کی چرِم نامی ایک خاتون کوہ پیما نے دنیا کی بلند ترین چوٹی’ ماؤنٹ ایورسٹ‘ کو کوہ پیمائی کے ایک ہی موسم میں دو مرتبہ سر کرکے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔
گنیز ورلڈ ریکارڈ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی وہ پہلی خاتون ہیں اور نیپال کے وزیرِ سیاحت پوستا بہادر بوگاٹی نے پیر کوکھٹمنڈو میں یہ سند 29 سالہ چرِم کو دی۔
اُنھوں نے آٹھ ہزار آٹھ سو پچاس میٹر دنیا کی بلند ترین چوٹی کو 12 مئی 2012ء کو سر کیا جس کے بعد وہ واپس اپنے بیس کیمپ پہنچیں جہاں دو روز آرام کرکے ایک ہفتے کے بعد 19 مئی کو دوبارہ ’ماؤنٹ ایورسٹ‘ کی چوٹی پرپہنچیں۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں چرِم نے کوہ پیمائی کا اپنا مشن جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔’’ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے پہلی چوٹی ہے جسے میں نے سر کیا ہے لیکن میں یہ سلسلہ جاری رکھوں گی اور اُمید ہے کہ میں اونچی پہاڑیوں کو سر کروں گی۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ مرد کوہ پیماؤں نے بہت سے ریکارڈ قائم کیے ہیں لیکن خواتین ان کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں کیونکہ خواتین کے لیے یہ خاصا مشکل کام ہے۔
نیپال کی کوہ پیمائی سے متعلق تنظیم ’نیپال ماؤنٹینرینگ ایسو سی ایشن‘ کے مطابق 1953 میں نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلری اور نیپال کے تنزنگ نورگے نے پہلی مرتبہ ایوریسٹ کو سر کیا تھا جس کے بعد اب تک لگ بھگ چار ہزار افراد یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں خواتین کوہ پیماؤں کی تعداد بہت کم ہے۔
سخت سرد موسمی حالات کے باعث ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع دنیا کی اس بلند ترین چوٹی تک پہنچنے کے لیے کوہ پیمائی کا موسم سال میں محض چند ہفتوں پر محیط ہوتا ہے اور بہارکا موسم اس کے لیے سب سے مقبول ترین ہے جب سینکڑوں کوہ پیماہ اس مشن کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمومی طور پر کوہ پیما مارچ اور اپریل میں ایوریسٹ پہنچتے ہیں اورکچھ عرصے کی مشقوں کے بعد مئی میں اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔
گنیز ورلڈ ریکارڈ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی وہ پہلی خاتون ہیں اور نیپال کے وزیرِ سیاحت پوستا بہادر بوگاٹی نے پیر کوکھٹمنڈو میں یہ سند 29 سالہ چرِم کو دی۔
اُنھوں نے آٹھ ہزار آٹھ سو پچاس میٹر دنیا کی بلند ترین چوٹی کو 12 مئی 2012ء کو سر کیا جس کے بعد وہ واپس اپنے بیس کیمپ پہنچیں جہاں دو روز آرام کرکے ایک ہفتے کے بعد 19 مئی کو دوبارہ ’ماؤنٹ ایورسٹ‘ کی چوٹی پرپہنچیں۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں چرِم نے کوہ پیمائی کا اپنا مشن جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔’’ ایورسٹ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے پہلی چوٹی ہے جسے میں نے سر کیا ہے لیکن میں یہ سلسلہ جاری رکھوں گی اور اُمید ہے کہ میں اونچی پہاڑیوں کو سر کروں گی۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ مرد کوہ پیماؤں نے بہت سے ریکارڈ قائم کیے ہیں لیکن خواتین ان کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں کیونکہ خواتین کے لیے یہ خاصا مشکل کام ہے۔
نیپال کی کوہ پیمائی سے متعلق تنظیم ’نیپال ماؤنٹینرینگ ایسو سی ایشن‘ کے مطابق 1953 میں نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلری اور نیپال کے تنزنگ نورگے نے پہلی مرتبہ ایوریسٹ کو سر کیا تھا جس کے بعد اب تک لگ بھگ چار ہزار افراد یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں خواتین کوہ پیماؤں کی تعداد بہت کم ہے۔
سخت سرد موسمی حالات کے باعث ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع دنیا کی اس بلند ترین چوٹی تک پہنچنے کے لیے کوہ پیمائی کا موسم سال میں محض چند ہفتوں پر محیط ہوتا ہے اور بہارکا موسم اس کے لیے سب سے مقبول ترین ہے جب سینکڑوں کوہ پیماہ اس مشن کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمومی طور پر کوہ پیما مارچ اور اپریل میں ایوریسٹ پہنچتے ہیں اورکچھ عرصے کی مشقوں کے بعد مئی میں اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔