ایک زمانے میں بنگلہ دیش، نیپال اور بھارت میں ان شیروں کی تعداد ہزاروں میں تھی لیکن جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق اب یہ کم ہو کر صرف 3000 تک رہ گئی ہے۔
تیزی سے معدوم ہوتی بنگالی شیر (رائل بنگال ٹائیگر) کی نسل کی اصل تعداد معلوم کرنے کے لیے جنگلی حیات کے سینکڑوں ماہرین نے جدید ترین کیمروں کی مدد سے نیپال کے جنوبی علاقوں میں ایک سروے شروع کیا ہے۔
ہمالیائی خطے میں شیروں کی جانچ کے لیے یہ سب سے بڑی مہم ہے جو کہ نیپال کی حکومت کی طرف سے 2022ء تک بنگالی شیروں کی تعداد کو دوگنا کرنے کے عزم کے تناظر میں بہت اہم تصور کی جا رہی ہے۔ نیپال میں اس وقت ان جانوروں کی تعداد لگ بھگ 176 ہے اور جو کہ غیر قانونی شکار اور آماجگاہوں کو پہنچنے والے نقصانات کے باعث خطرے سے دوچار ہیں۔
یہ اعداد و شمار جمع کرنے کی مہم جنوبی نیپال کے متعدد قومی پارکوں میں شروع کی گئی ہے جو کہ سرحد پار بھارت تک پھیلے ہوئے ہیں جو اپنی جانب بھی ایسا ہی سروے شروع کرے گا۔
نیپال کے ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات سے وابستہ ایک ماہر ماحولیات مہیشور دھکل نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ سروے کے دوران ٹیکنیشنز ان علاقوں میں شیروں کی گزرگاہوں پر اس انداز سے کیمرے لگائیں گے کہ ’’ شیروں کے حرکت کرتے ہی یہ تصاویر محفوظ کر لیں گے۔‘‘
ان کے بقول اس طرح سے حاصل ہونے والے نتائج بہت حد تک درست ہوں گے۔
ایک زمانے میں بنگلہ دیش، نیپال اور بھارت میں ان شیروں کی تعداد ہزاروں میں تھی لیکن جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق اب یہ کم ہو کر صرف 3000 تک رہ گئی ہے۔
اس کمی کی ایک بڑی وجہ شیروں کا غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ ہے۔ خاص طور پر ان شیروں کے مختلف جسمانی حصوں کے روایتی چینی ادویات میں استعمال میں مانگ بھی ان کی تعداد میں کمی کا ایک سبب ہے۔
2010ء میں نیپال نے 2020ء تک شیروں کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کر کے ان کی تعداد کو دوگنا کرنے کا عزم کیا تھا۔
ہمالیائی خطے میں شیروں کی جانچ کے لیے یہ سب سے بڑی مہم ہے جو کہ نیپال کی حکومت کی طرف سے 2022ء تک بنگالی شیروں کی تعداد کو دوگنا کرنے کے عزم کے تناظر میں بہت اہم تصور کی جا رہی ہے۔ نیپال میں اس وقت ان جانوروں کی تعداد لگ بھگ 176 ہے اور جو کہ غیر قانونی شکار اور آماجگاہوں کو پہنچنے والے نقصانات کے باعث خطرے سے دوچار ہیں۔
یہ اعداد و شمار جمع کرنے کی مہم جنوبی نیپال کے متعدد قومی پارکوں میں شروع کی گئی ہے جو کہ سرحد پار بھارت تک پھیلے ہوئے ہیں جو اپنی جانب بھی ایسا ہی سروے شروع کرے گا۔
نیپال کے ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات سے وابستہ ایک ماہر ماحولیات مہیشور دھکل نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ سروے کے دوران ٹیکنیشنز ان علاقوں میں شیروں کی گزرگاہوں پر اس انداز سے کیمرے لگائیں گے کہ ’’ شیروں کے حرکت کرتے ہی یہ تصاویر محفوظ کر لیں گے۔‘‘
ان کے بقول اس طرح سے حاصل ہونے والے نتائج بہت حد تک درست ہوں گے۔
ایک زمانے میں بنگلہ دیش، نیپال اور بھارت میں ان شیروں کی تعداد ہزاروں میں تھی لیکن جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق اب یہ کم ہو کر صرف 3000 تک رہ گئی ہے۔
اس کمی کی ایک بڑی وجہ شیروں کا غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ ہے۔ خاص طور پر ان شیروں کے مختلف جسمانی حصوں کے روایتی چینی ادویات میں استعمال میں مانگ بھی ان کی تعداد میں کمی کا ایک سبب ہے۔
2010ء میں نیپال نے 2020ء تک شیروں کے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کر کے ان کی تعداد کو دوگنا کرنے کا عزم کیا تھا۔