وادی نیلم میں سیاحت عروج پر، گھر گیسٹ ہاؤسز بننے لگے

  • روشن مغل

وادی نیلم کا ایک منظر،

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی مشہور وادی نیلم سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے اور موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی وہاں سیاحوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بیرونی ملکوں کی طرح وادی نیلم کے مکینوں نے بھی اپنے گھروں کو سیاحتی قیام گاہوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔

بلند و بالا پہاڑوں، گھنے جنگلات، چشموں، جھیلوں اور آبشاروں سے مزین وادی نیلم گزشتہ چند برسوں سے پاکستانی سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز بنی ہوئی ہے۔

سن 2011 میں وادی نیلم کو مظفرآباد سے ملانے والی سڑک کی تعمیر کے بعد ہر سال بڑی تعداد میں لوگ وادی نیلم کی سیاحت کرنے آ رہے ہیں۔

سیاحوں کے قیام کے لیے سرکاری سطح پر زیادہ سہولتیں موجود نہیں ہیں، تاہم اب نجی شعبہ آگے آ رہا ہے اور گیسٹ ہاوئس قائم کیے جا رہے ہیں، لیکن ان کی تعداد سیاحوں کے مقابلے میں کم ہے۔ اس خلا کو بھرنے کے لیے اب وادی کے مکینوں میں اپنے گھروں کو سیاحوں کی قیام گاہوں میں تبدیل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

وادی نیلم سے سابق وزیر تعلیم میاں عبدالوحید گھروں کو گیسٹ ہاؤسز میں تبدیل کرنے کے رجحان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہوٹلوں کی کمی کی وجہ سے سیاحوں نے رہائشی گھروں میں کمرے کرائے پر لینے شروع کیے۔ اس چیز نے مالکان کو اپنے گھروں کو سیاحوں کی رہائش گاہوں میں بدلنے پر راغب کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت نیلم کے مکینوں میں رہائشی گھروں کو سیاحتی آرام گاہوں میں تبدیل کرنے کا رجحان عروج پر ہے۔

سرحدی وادی کے علاقے اپر نیلم کے ایک گاؤں کے محمد الطاف بھی ان سینکڑوں مکینوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے گھر سیاحتی آرام گاہوں میں تبدیل کیے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک بے روزگاری اور گولہ باری کی زد میں رہنے کی وجہ سے پسماندگی نے ہمیں اپنے گھر سیاحوں کو کرائے پر دینے کی جانب راغب کیا تاکہ آمدنی کی کوئی سبیل نکل سکے۔

وادی نیلم کی سیاحوں کے لیے قیام گاہیں۔

دواریاں کے علاقے میں اپنے گھروں کو ریسٹ ہاؤس بنانے والوں میں محمد حنیف بھی شامل ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ بتایا کہ سڑک کے قریب رہنے والے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کو گیسٹ ہاؤسز میں تبدیل کر رہے ہیں۔

تاہم وادی نیلم میں قائم ہونے والے ان ریسٹ ہاؤسز سے ابھی تک حکومت نے ٹیکس وصول کرنا شروع نہیں کیا ہے۔

وادی نیلم میں سرکاری ریسٹ ہاؤسز کا انتظام چلانے والی ایک نجی کمپنی کے مالک خواجہ اویس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے وادی نیلم میں قیام کرنے والے سیاحوں سے ابھی تک ٹیکس نہیں لیا جا رہا۔ لیکن وہ از خود سیاحوں سے ٹیکس وصول کر کے حکومت کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو سکے۔

کشمیر کی حکومت نے سیاحت کے شعبے کو ضابطہ کار کے تحت لانے کے لیے حال ہی میں قانون ساز اسمبلی سے قوانین بھی منظور کروائے ہیں۔

محمکہ سیاحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ان قوانین پر جلد عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔

وادی نیلم 1990 سے 2003 شدید گولہ باری کی زد میں رہی۔ جس سے وادی کو دیگر علاقوں سے ملانے والی واحد سڑک کئی سال تک بند رہی ۔اس بندش کی وجہ سے بھی وادی نیلم میں پسماندگی زیادہ ہے۔