نیلم احمد بشیر: افسانہ نگار و شاعرہ

لکھنا ایک آرٹ ہے، شوق ہے یا دل کی بھڑاس نکالنا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ شروع تو شوق کے طور پر ہوتا ہے، لیکن پھر ہوتے ہوتے یہ ایک آرٹ بن جاتا ہے

نیلم احمد بشیر ایک معروف افسانہ نگار اور شاعرہ ہیں۔ نیلم احمد بشیر نے خود لکھنا تو بہت دیر سے شروع کیا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے علم و ادب کی دنیا میں داخل ہونے میں بہت زیادہ عمل دخل ان کے گھر کے ماحول کا رہا۔

http://www.youtube.com/embed/fChGVYHDHx8

نیلم کے والدإٕحمد بشیر پاکستانی صحافت کا ایک بڑا نام ہونے کے ساتھ ساتھ ، ادب اور فنون لطیفہ سے بھی منسلک رہے۔ نیلم کی بہنیں بھی فنون لطیفہ سے منسلک رہی ہیں، جن میں ایک اہم نام بشرا انصاری کا ہے جنھوں نے پاکستانی ڈراموں اور طنز و مزاح کے پروگراموں میں خوب نام کمایا۔

نیلم کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں ان تمام چیزوں کی موجودگی نے انھیں بھی اس طرف مائل کیا۔لیکن انھوں نے لکھنا بہت دیر میں شروع کیا جب ان کی شادی ہوچکی تھی اور وہ اپنی زندگی میں نہایت مصروف تھیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ انھیں اپنی زندگی سے بھی افسانہ نگاری کی تحریک ملی۔

نیلم نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ امریکہ میں گزارا، وہ نہایت کم عمری میں شادی کے بعد امریکہ آ کر آباد ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے جب انھوں نے لکھنا شروع کیا تو انھوں نے شعوری طور کہانیاں یا موضوعات چنے نہیں بلکے جو ان کے سامنے ہوتا رہا وہ اس کے بارے میں لکھتی رہیں۔ نیلم کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا ہمیشہ ڈر لگا رہتا تھا کہ شاید ان کی تحریریں اتنی اچھی نا ہوں یا اتنی سراہی نا جائیں اس لیے انھوں نے ہمیشہ اپنی تحریروں کا اپنے والد سے چھپانے کی کوشش بھی کی۔ ان کا کہنا ہے وہ اردو کی افسانہ نگار خواتین سے بھی متاثر ہوئیں ان کی تحریروں کو بھی پڑھا۔جنھوں نے خواتین افسانہ نگاروں کے لیے راہ ہموار کی۔

ان کا کہنا ہے ان کے گھر میں ادیبوں کا ایک میلہ سا لگا رہتا تھا۔ خاص طور پر وہ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ابن انشا اور ممتاز مفتی نے بچپن میں ان کی رہنمائی بھی کی اور دوستوں کی طرح ان کے ساتھ وقت بھی گزارا۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ کیسے وہ ابن انشا کو ’ان شن چنا‘ کہتی تھیں کیونکہ اس وقت انھیں ابن انشا نہیں کہنا آتا تھا۔ ممتاز مفتی کا ایک قول وہ یاد کرتی ہیں کہ ’ جو شخص لکھ سکتا ہے اور وہ نا لکھے، تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے‘ ۔

لکھنا ایک آرٹ ہے ، شوق ہے یا دل کی بھڑاس نکالنا ہے، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا یہ شروع تو شوق کے طور پر ہوتا ہے لیکن پھر یہ ایک آرٹ بن جاتا ہے ، کیونکہ ہر شخص لکھ نہیں سکتا ۔

امریکہ میں گزری اپنی زندگی کو وہ اپنے اس شوق کی تکمیل میں ایک اہم باب تصور کرتی ہیں، کیونکہ ان کے مطابق امریکہ میں رہ کر انھیں صاف اور سیدھی بات کہنے کا طریقہ آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید پاکستان میں رہ کر وہ ایسی کہانیاں نا لکھ سکتی ۔ انھیں امریکہ میں دنیا کو دیکھنے کا موقع ملا جسے انھوں نے پاکستان واپس آکر استعمال کیا اور لکھنا شروع کیا۔ انھوں نے امریکی معاشرے کی کہانیاں لکھیں، پاکستانی امریکیوں کی کہانیاں لکھیں اور ایسی کہانیاں لکھیں جو ان کے آس پاس رونما ہوتی تھیں۔

امریکی معاشرے کی اقدار کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ احساس ہوا کہ امریکی معاشرہ ایک صاف گو سچ پر مبنی معاشرہ ہے، جہاں لوگ لگی لپٹی نہیں کہتے بلکےحق کا ساتھ دیتے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ آرٹ سےتعلق رکھنے والے لوگ زندگی کی عام ڈگر سے ہٹ کر چلتے ہیں۔ ان کی زندگیاں نارمل نہیں ہوتیں ۔تو انھوں نے بھی محسوس کیا کہ شادی ہوگئی ، بچے ہو گئے ، برتن کپڑے بھی دھو لیے۔ اب کیا ؟ تو پھر انھوں نے ان تمام چیزوں کو الفاظ میں بدلنا شروع کیا جو انھوں نے اپنی زندگی میں محسوس کیں یا لوگوں کو ان چیزوں سے گزرتے دیکھا۔

آج کل کے دور میں افسانہ نگاری اور ادب اور آرٹ کے رحجان کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ حالات باعث تشویش ہیں، کیونکہ نئی نسل میں خاص طور پر پڑھنے لکھنے کا شوق کم ہے، آرٹ کا شوق کم ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ پتا نہیں اگلے پچاس سال میں ہماری کتابیں بھی رہیں گی یا نہیں۔ پتا نہیں ہمارے معاشرے میں ادب کہاں ہوگا ۔

لیکن آج کی نسل کے لیے پیغام دیتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ ہماری نسل کو چاہیئے کہ پڑھے، کیونکہ جب تک آپ پڑھیں گے نہیں آپ لکھ نہیں سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادب وقت کے لحاظ سے اپنی روش بدلتا ہے اور اس زمانے کی کہانیوں کو بیان کرتا ہے۔ انھوں نےکہا کہ کیا پتا کب آپ کا لکھا ہوا کسی کو جھنجھوڑ سکے ، کسی کے خیالات کو بدل سکے اور کہیں معاشرے میں کوئی بہتر تبدیلی لاسکے ۔ تو نوجوان جو لکھ سکتے ہیں، یا لکھنا چاہتے ہیں انھیں اپنے اس شوق کو چھوڑنا نہیں چاہیئے۔

نیلم احمد بشیر کی پہلی کتاب گلابوں والی گلی تھی۔ اس کے بعد آنے والی کتابوں میں ’جگنوں کے قافلے‘ ،’ لے سانس بھی آہستہ‘ ، ’ستمگر ستمبر‘ اور ’ایک تھی ملکہ‘ شامل ہیں۔ حال ہی میں، ان کی آنے والی کتاب ہے’چار چاند‘، جس میں انھوں نے شخصی خاکے پیش کیے ہیں۔