برطانیہ کے محکمۂ داخلہ نے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ویزے کی توسیع کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
نواز شریف نے چھ ماہ قیام کی مدت ختم ہونے پر برطانوی حکومت کو طبی بنیادوں پر ویزے میں توسیع کی درخواست دی تھی البتہ برطانوی امیگریشن حکام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کے ویزے میں مزید توسیع سے برطانوی محکمۂ داخلہ نے معذرت کی ہے۔ برطانوی محکمۂ داخلہ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ نواز شریف اس فیصلے کے خلاف امیگریشن ٹریبونل میں اپیل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ نواز شریف اس وقت بیمار نہیں ہیں۔
فواد چوہدری کے مطابق نواز شریف نے جھوٹ بول کر ویزا لیا اور اسی ویزے پر وہ برطانیہ میں مقیم تھے۔ پاکستان کی حکومت، عوام اور پاکستانی کمیونٹی کا برطانوی حکومت سے مطالبہ تھا کہ ایسے لوگوں کو پناہ نہ دی جائے جو اربوں روپے کی بد عنوانی میں ملوث ہوں۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو اکتوبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آٹھ ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور وہ علاج کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔
حکومت نے انہیں انسانی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی تھی۔ نواز شریف عدالتوں سے ضمانت کے بعد 19 نومبر 2019 سے لندن میں مقیم ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کے مطابق نواز شریف کی ویزا توسیع کی درخواست پر محکمۂ داخلہ نے معذرت کی ہے جس پر نواز شریف کے وکلا نے برطانوی امیگریشن ٹریبونل میں اپیل دائر کر دی ہے۔
ان کے مطابق برطانوی امیگریشن ٹریبونل میں دائر اپیل پر فیصلہ ہونے تک محکمۂ داخلہ کا حکم غیر مؤثر رہے گا۔ اپیل پر فیصلہ ہونے تک نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر رہ سکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے جاری اعلامیے کے مطابق جماعت کے صدر اور قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے ٹیلی فون پر نواز شریف سے رابطہ کیا اور برطانوی محکمۂ داخلہ کے فیصلے سے متعلق بات چیت کی۔
بیان کے مطابق نواز شریف نے شہبازشریف کو قانونی کارروائی سے متعلق آگاہ کیا۔ اور نواز شریف نے بتایا کہ ان کے وکلا نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔ اپیل میں نواز شریف کی طبی وجوہات اور علاج کی وجہ سے برطانیہ میں قیام کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
شہباز شریف نے نواز شریف سے اصرار کیا کہ وہ مکمل علاج اور ڈاکٹروں سے اجازت ملنے تک برطانیہ میں ہی قیام کریں۔
اس بارے میں حکومت کے ترجمان وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ برطانیہ حکومت نے نواز شریف کے میڈیکل ویزا میں توسیع سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے برطانیہ سے جھوٹ بول کر ویزا حاصل کیا تھا۔ حکومتِ پاکستان کا برطانوی حکومت سے مطالبہ تھا کہ وہ اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث افراد کو پناہ نہ دے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ نوازشریف کے پاس یہ راستہ موجود ہے کہ وہ برطانیہ میں پاکستان کے سفارت خانے جائیں۔ وہاں انہیں عارضی سفری دستاویزات فوری فراہم کی جائیں گی جن پر وہ سفر کرکے پاکستان آئیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ نواز شریف پاکستان میں جیل جائیں گے اور ان پر دائر مقدمات کا سامنا کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ برطانوی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں البتہ یہ اپیل بھی مسترد ہو جائے گی۔ کیوں کہ ان کے پاس کوئی گراؤنڈ نہیں ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ نواز شریف بیمار نہیں ہیں۔ وہ کبھی ہوٹلوں میں جا رہے ہیں اور کبھی کہیں گھوم رہے ہیں۔ وہ برطانوی حکام سے بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور ایسے جھوٹ بولنے سے ان کے خلاف وہاں بھی کیس بن سکتا ہے۔ نواز شریف کو چاہیے کہ وہ عارضی سفری دستاویزات لیں اور واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی نواز شریف سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے اربوں روپے لوٹ کر ملک سے فرار ہوئے ہیں۔ یہ پیسہ پاکستان واپس لانا ضروری ہے۔ ملک واپس آ کر وہ لوٹا ہوا پیسہ واپس کریں اور اس کے بعد بے شک اپنے گھر میں رہیں۔ صرف یہ راستہ موجود ہے کہ لوٹا ہوا پیسہ واپس کریں یا پھر جیل جائیں۔
فواد چوہدری کے اس بیان پر مریم اورنگزیب نےسوشل میڈیا پر پیغام میں کہا کہ نواز شریف قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے برطانیہ میں ہی قیام کریں گے۔ نواز شریف اس وقت تک برطانیہ میں ہی رہیں گے جب تک ان کا علاج نہیں ہو جاتا اور ڈاکٹر انہیں اجازت نہیں سے دیتے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ گھبرانے اور جیل جانے کی باری ان کی ہے جو بدعنوانی اور مہنگائی کرتے ہوئے نہیں گھبراتے ۔ جھوٹے الزامات کے باوجود نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ وطن واپس آئے اور جیل گئے۔ ان کے بقول انہیں کسی کے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔
نواز شریف کے پاس کیا کیا آپشن ہیں؟
اس بارے میں برطانیہ میں کام کرنے والے سینئر وکیل بیرسٹر امجد ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی ابھی ویزا توسیع کی درخواست مسترد ہوئی ہے البتہ ان کے پاس ابھی بہت سے آپشن موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں نواز شریف کے وکلا نے اپیل دائر کر دی ہے اور اس اپیل کی سماعت میں ہی چھ ماہ سے ایک سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ اگر امیگریشن ٹریبونل میں اپیل بھی مسترد ہو گئی تو اس کے بعد نواز شریف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
بیرسٹر امجد ملک نے مزید کہا کہ نواز شریف اس بارے میں ٹریبونل کو آگاہ کر سکتے ہیں کہ انہیں کن بنیادوں پر ویزا میں توسیع دی جائے۔ نواز شریف کے ڈاکٹرز کے بیانات اس بارے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی تک حکومتِ پاکستان نے نواز شریف کی حوالگی یا پھر انٹرپول کے ذریعے ملک واپس لانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر حکومتِ پاکستان ایسی اپیل کرتی ہے تو یہ معاملہ بھی الگ سے دیکھا جائے گا۔ اپیل دائر ہونے کے بعد اس کی سماعت مکمل ہونے تک ان کا یہاں قیام قانونی ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
نواز شریف کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے کے سوال پر امجد ملک کا کہنا تھا کہ برطانوی امیگریشن قانون کے مطابق اس پاسپورٹ کی مدت ختم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ جب پہلی مرتبہ ویزا کے لیے درخواست دی جاتی ہے تو اس کے لیے قابلِ میعاد پاسپورٹ ہونا ضروری ہے۔ درخواست کے ساتھ اس کی کاپی دی جاتی ہے لیکن اس میں توسیع یا پھر عدالتی کارروائی کے لیے قابلِ استعمال پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ نواز شریف کو پاکستان یا کسی اور ملک سفر کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت ہوگی ۔ پاکستان واپس آنے کے لیے انہیں سفری دستاویزات بھی دی جا سکتی ہیں۔
بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خاندان نے اب تک سیاسی پناہ لینے کو مکمل طور پر رد کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ علاج کے بعد پاکستان جانا چاہتے ہیں البتہ نوازشریف کے پاس ابھی کافی آپشن موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیکل گراؤنڈز پر ان کی ویزا توسیع کی درخواست مسترد ہوئی تو ان کے بیٹے برطانوی پاسپورٹ ہولڈر ہیں اور اگر وہ اپنے والد کو سپورٹ کرتے ہوئے ویزا کی درخواست دیں تو اس پر بھی انہیں ویزا مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے ان کے پاسپورٹ کی تجدید نہ ہونے کے بیانات موجود ہیں۔ لہٰذا نواز شریف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسٹیٹ لیس ہونے کی درخواست کریں تو اس پر بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف پاکستانی عدالتوں اور ارشد ملک کے معاملے پر بھی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ نواز شریف کو سیاسی پناہ کی درخواست دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ان کے پاس کافی راستے موجود ہیں۔
امجد ملک نے بتایا کہ ایک سال تک نواز شریف کی اپیل کی کارروائی ہونے کا امکان ہے۔ ایسے میں ان کا فوری پاکستان واپس جانا بھی مشکل نظر آ رہا ہے۔