نواز شریف آج صدر اوباما سے ملاقات کریں گے

توقع ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی ملاقات میں ہونے والی بات چیت کا اہم حصہ ہو گا۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی امریکہ کے صدر براک اوباما سے ملاقات بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ہو رہی ہے۔

توقع ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی ملاقات میں ہونے والی بات چیت کا اہم حصہ ہو گا۔

گزشتہ ماہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں بھی وزیر اعظم نواز شریف نے ڈرون حملوں کو ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کےترجمان جے کارنی نے منگل کو ایک بیان میں ڈرون حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ ایسے حملے اُسی وقت کرتا ہے جب وہ یا اُس کے اتحادی براہ راست دہشت گردوں کو پکڑنے کے اہل نہیں ہوتے۔

ڈرون حملوں کے معاملے پر اختلافات کے باوجود امریکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں پائے جانے والے تناؤ کو کم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔

اوباما انتظامیہ نے رواں ماہ کانگریس سے کہا کہ وہ پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی امداد جاری کرنے کی منظوری دے۔

20 اکتوبر کو واشنگٹن پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا تھا کہ اُن کا ملک پاکستان سے قریبی تعلقات چاہتا ہے۔

رواں سال جون میں وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد نواز شریف کی صدر براک اوباما سے یہ پہلی باضابطہ ملاقات ہو گی۔

توقع کی جا رہی کہ وزیر اعظم پاکستان میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے دہشت گردوں سے مذاکرات کے فیصلے سے بھی امریکی قیادت کو آگاہ کریں گے۔

دہشت گردی اور اس سے جڑے دیگر اُمور کے علاوہ پاکستانی حکام کے مطابق اس ملاقات میں دوطرفہ تجارت اور اقتصادی تعاون بڑھانے پر بھی بات چیت کی جائے گی۔

پاکستان میں قانون سازوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کی سمت کا تعین کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں قریبی اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب آئندہ سال افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج نے انخلاء کا اعلان کر رکھا ہے۔

غیر ملکی افواج کے انخلاء میں پاکستان کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیوں کہ خشکی سے گھرے ملک افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا بیشتر ساز و سامان پاکستان کے زمینی راستے سے ہوتے ہوئے ہی سمندر کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا جائے گا۔