پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے منگل کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ایک پرہجوم نیوز کانفرنس میں جہاں یہ کہا کہ عدالتی اور قانونی عمل سے فرار اُن کا طریقہ نہیں, وہیں اُنھوں نے اپنی نا اہلی کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر شدید تنقید کی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا، ’’ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انصاف اور قانون کے تقاضے کس بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔ لیکن ہم کارروائی میں شامل رہے اور بالآخر فیصلہ یہ آیا کہ ایک پائی کی بدعنوانی۔۔۔ یا اختیارات کا غلط استعمال ثابت نہیں ہوا۔۔۔ چونکہ مجھے نا اہل کرنا ہی تھا اس لیے اقامہ کی آڑ لی گئی۔‘‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ فیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو عدالتوں کی ساکھ بھی نہیں رہتی۔
’’ہماری تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کا ذکر کرتے ہوئے بھی ندامت ہوتی ہے۔۔۔۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم 70 سال پرانے کینسر کا علاج تجویز کریں ورنہ مجھے ڈر ہے کہ پاکستان خدا نخواستہ کسی سانحے کا شکار نہ ہو جائے۔‘‘
نواز شریف نے کہنا تھا کہ وہ جھوٹ کی بنیاد پر بنائے گئے مقدمات لڑ رہے ہیں اور اپنا مقدمے لڑتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کے عمل کو جب انتقام کا عمل بنا دیا جائے تو پہلی سزا کسی فرد کو نہیں ملتی خود عدالتی عمل کو ملتی ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ لاہور کے حلقے این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی اُن پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے۔
’’ایک بڑا فیصلہ 2018 میں آئے گا، ایسا عظیم فیصلہ جو مولوی تمیز الدین کیس سے اب تک کے اس طرح کے فیصلوں کو بہا لے جائے گا۔‘‘
نواز شریف جب نیوز کانفرنس سے خطاب کے لیے آئے تو اُن کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے کئی سینئر رہنما بھی موجود تھے۔ تاہم اُنھوں نے لکھے ہوئے اپنے بیان کے بعد صحافیوں کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔