نواز شریف اور مریم نواز کے لیے مزید دو دن کا استثنا

فائل فوٹو

مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز کے حتمی دلائل کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز خاندان کے خلاف لندن فلیٹس ریفرنس میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے مزید 2 دن کا استثنیٰ دے دیا جبکہ کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کردی گئی جس میں بتایا گیا ہے ان کی طبیعت میں بہتری آرہی ہے۔

نواز خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز کے حتمی دلائل کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز لندن میں ہونے کی وجہ سے آج بھی پیش نہ ہو سکے۔

دوران سماعت نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے 7 دن کے استثنیٰ کی درخواست پر بحث کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے استثنیٰ کی مخالفت کی اور دلائل دیے کہ ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق بیگم کلثوم نواز کی طبعیت بہتر ہے، اب نواز شریف اور مریم نواز کا وہاں رہنا ضروری نہیں۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہتا کہ ہر پیشی پر سات دن کا استثنیٰ مانگ لیا جائے۔ انہوں نے کہا نواز شریف اور مریم نواز کو ٹائم دینا چاہیئے کہ وہ ایک دو دن میں عدالت میں پیش ہوں۔

امجد پرویز نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز لندن میں انتہائی علیل ہیں۔ درخواست کے ساتھ کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹس بھی منسلک کی گئی۔

عدالت میں پیش کی گئی کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ 27 جون کو تیارکی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ کلثوم نواز کی طبیعت پہلے کی نسبت بہتر ہوئی ہے تاہم وہ ابھی تک وینٹی لیٹرپرہیں اور وینٹی لیٹرہٹانے کا فی الحال حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے مزید 2 دن کا استثنیٰ دے دیا۔

کلثوم نواز گزشتہ برس سے لندن میں زیر علاج ہیں۔ عید الفطر سے دو روز قبل ان کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی تھی۔

وکیل صفائی امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ کہ قانون کے مطابق متعلقہ شعبے میں مہارت والا ہی رائے دے سکتا ہے اور جس بنیاد پر ماہر رائے دے رہا ہے، وہ بنیاد بھی متعلقہ ہونی چاہیئے۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ وہ 1976 سے اس شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی تعلیم نہیں بتائی۔

انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی سی وی ضرور ی ہے لیکن بیان کے دوران وہ سی وی ریکارڈ پر نہیں دیکھی گئی۔ استغاثہ کو وہ سی وی رابرٹ ریڈلے کے بیان کے وقت ریکارڈ پر لانی چاہیے تھی۔

وکیل صفائی امجد پرویز نے دلائل کے دوران مزید کہا کہ فونٹ کی شناخت کرنا ایک الگ مہارت ہے لیکن رابرٹ ریڈلے نے اپنی سی وی میں یہ مہارت ظاہر نہیں کی۔

امجد پرویز نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 4 کے صفحہ 136 پر ایلن ریڈلے کی سی وی بھی موجود ہے جس میں انہوں نے فونٹ کی شناخت کی مہارت ظاہر کر رکھی ہے لیکن ایلن ریڈلے کے مقابلے میں رابرٹ ریڈلے نے یہ بات نہیں لکھی۔

وکیل صفائی امجد پرویز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے فونٹ شناخت کرنے کے ماہر نہیں ہیں۔ کسی ماہر پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی معلومات کے ذرائع بتائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ رابرٹ ریڈلے نے جرح میں تسلیم کیا کہ وہ کمپیوٹر کے ماہر نہیں۔

امجد پرویز کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے تسلیم کیا کہ 2005 میں انہوں نے کیلبری فونٹ ڈاؤن لوڈ کیا، اس اعترافی بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اُس وقت کیلبری فونٹ دستیاب تھا جبکہ استغاثہ نے کہا کہ 2007 سے پہلے کیلبری فونٹ کمرشل استعمال کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے دلائل کے دوران کہا کہ اگر استغاثہ کی بات مان لیں تو 2005 میں کیلبری فونٹ دستیاب ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

وکیل صفائی کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ انہوں نے اپنی معلومات کے ذرائع ظاہر کر رکھے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اور رابرٹ ریڈلے نے کوئی معلومات ظاہر نہیں کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے رابرٹ ریڈلے کی خدمات اختر راجہ کے ذریعے حاصل کیں۔ یہ خدمات اختر راجہ کے بغیر بھی حاصل کی جا سکتی تھیں۔

امجد پرویز نے دلائل کے دوران کہا کہ رابرٹ ریڈلے غیر جانبدار نہیں۔ انہوں نے گواہی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔

انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے اپنی پہلی رپورٹ میں فونٹ کی بات ہی نہیں کی۔ تین دن بعد ریڈلے نے دوسری رپورٹ بھیج دی جس میں انہوں نے بات ہی فونٹ کے حوالے سے کی لیکن یہ نہیں بتایا کہ پہلی رپورٹ میں فونٹ والی بات کیسے رہ گئی۔

وکیل صفائی امجد پرویز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے فوٹو کاپی کا تجزیہ کر کے رپورٹ دی اور کہا کہ تجزیہ تجربے کے لیے بہترین طریقہ ہے۔ وہ فوٹو کاپیوں سے مطمئن نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ فوٹو کاپی سے جانچنا ممکن نہیں کہ 2004 کو کاٹ کر 2006 یا 2006 کو 2004 لکھا گیا۔

امجد پرویز کے مطابق رابرٹ ریڈلے نے فیصلہ کرنے کا اختیار اس عدالت پر چھوڑا ہے۔

وکیل صفائی امجد پرویز نے دلائل کے دوران مزید کہا کہ استغاثہ نے نہیں بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کہاں اور کس قانون کے تحت رجسٹر کرانا ضروری تھی جبکہ صفحہ مثل پر ایسی کوئی شہادت بھی موجود نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسٹیفن مورلے کے مطابق ایسی کوئی اتھارٹی نہیں جہاں ایسی ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹر کرائی جائے۔

29جون کو سماعت پراحتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایڈووکیٹ امجد پرویز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں پیر 2 جولائی کو ہر حالت میں حتمی دلائل ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم آج بھی دلائل مکمل نہ کیے جاسکے۔

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔