|
جمعرات 4 اپریل کو نیٹو اتحاد کے ارکان نے اتحاد کی 75 ویں سالگرہ ایک ایسے موقع پر منائی جب روس یوکرین جنگ جاری ہے جس میں نیٹو اتحاد، روسی جارحیت کے خلاف یوکرین کو اپنے دفاع کے لیے مختلف نوعیت کی فوجی امداد کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
نیٹو کے ہیڈکوارٹرز برسلز میں ہونے والی سالگرہ کی تقریب میں یوکرین کے وزیر خارجہ دیمترو کولیبا نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ میں نیٹو کی سالگرہ کی تقریب کو خراب نہیں کرنا چاہتا، لیکن اپنے ملک پر روسی فضائی حملوں سے ہماری توانائی کے نظام، ہماری معیشت اور شہریوں کی ہلاکتوں پر اپنے ملک کے باشندوں کی جانب سے میں ایک سنجیدہ پیغام دینے پر مجبور ہوں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے نیٹو وزرائے خارجہ کے اجلاس میں یوکرین کے حوالے سے کہا کہ ہم وہ سب کچھ کریں گے جو ہم کرسکتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ روس کی جارحیت سے مقابلے کے لیے یوکرین کے پاس وہ سب کچھ ہو جو اسے درکار ہے۔
کولیبا نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ سے ملاقات میں نئے اضافی فضائی دفاعی نظام، خاص طور پر امریکی ساختہ پیٹریاٹ میزائل فراہم کرنے کی اپیل کی۔
اسٹولٹن برگ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ اتحادی اب واپس جا کر اپنے فوجی ذخائر کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں گے کہ آیا وہ یوکرین کو مزید دفاعی سسٹمز فراہم کر سکتے ہیں، خاص طور پر پیٹریاٹ۔ اتحادی یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ یوکرین کے پاس جو فضائی دفاعی سسٹمز موجود ہیں، ان کے لیے گولا بارود اور اسپیئر پارٹس بھی اس کے پاس ہونے چاہیئں۔
نیٹو کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ سات دہائیوں سے زیادہ مدت سے، آزادی اور قانون کی حکمرانی کو ایک بار پھر ان سے خطرہ ہے جو اس پر یقین رکھتے ہیں کہ طاقت سے وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور جو طاقت کے ذریعے سرحدوں کو پھر سےتشکیل دینا چاہتے ہیں۔
اس سے قبل برسلز میں نیٹو کی 75 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔ فوجی پریڈ ہوئی اور فوجی بینڈز نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
نیٹو کے دفاعی اتحاد کا معاہدہ 4 اپریل 1949 کو واشنگٹن میں ہوا تھا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ کسی رکن ملک پر جارحیت کے خلاف تمام اتحادی اس کا مل کر دفاع کریں گے۔ اس معاہدے میں شمالی امریکہ اور یورپ کے ممالک شامل تھے۔
معاہدے پر دستخط کرنے والے بانی ارکان کی تعداد 12 تھی۔ جن میں امریکہ، فرانس، برطانیہ، اٹلی، کینیڈا، ناروے، نیدرلینڈز، بیلجئم ،ڈنمارک، پرتگال، آئس لینڈ اور لگسمبرگ شامل تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور 75 سال کے بعد نیٹو اتحاد کے ممالک کی تعداد 32 ہو چکی ہے۔ اس تنظیم میں شامل ہونے والے تازہ ترین ممالک فن لینڈ اور سویڈن ہیں۔
کسی ایک رکن کے خلاف مشترکہ دفاع کا سب سے بڑا مظاہرہ 2001 میں امریکہ پر دہشت گرد گروپ القاعدہ کے حملے کے خلاف کیا گیا، اور نیٹو کی کمان میں اتحادی ممالک نے 20 سال تک افغانستان میں فوجی آپریشن کیا، جو اس اتحاد کی جانب سے سب سے طویل اور مہنگا آپریشن تھا۔
یوکرین بھی نیٹو میں ایک نشست حاصل کرنے کا خواہش مند ہے لیکن یہ اتحاد اتفاق رائے سے کام کرتا ہے اور جب تک تمام رکن ممالک سے منظوری حاصل نہ ہو جائے، کوئی نیا ملک نیٹو کا رکن نہیں بن سکتا۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یورپ کو روس کی جانب سے توسیع پسندانہ عزائم کا خطرہ ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے نیٹو ممالک یوکرین کو ہتھیار، گولابارود اور دوسری امداد فراہم کر رہے ہیں۔ تاکہ روس کو نیٹو کے کسی رکن کو نشانہ بنانے کے امکان سے باز رکھا جا سکے۔
دفاع سے متعلق نیٹو معاہدے کے آرٹیکل 5 کو سب سے مشکل امتحان کا سامنا اس وقت ہوا جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے صدارتی دور میں نیٹو سے کہا کہ امریکہ نیٹو کے اس رکن ملک کا دفاع شاید نہ کر سکے، جو اپنے دفاع پر مجموعی قومی پیداوار کا کم ازکم 2 فی صد خرچ نہ کر رہا ہو۔
2014 میں نیٹو کے رکن ممالک نے اپنے دفاعی اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے کم ازکم 2 فی صد تک لانے پر اتفاق کیا تھا۔
تقریباً ایک عشرہ قبل نیٹو کے صرف 3 رکن ممالک اس پیمانے پر پورا اترتے تھے، لیکن اب ایسے ارکان کی تعداد اس سال 18 تک پہنچ جائے گی۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات اے پی اور رائٹرز سے لی گئیں ہیں)