مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد (نیٹو) نے افغان طالبان سے کہا کہ وہ اپنے حملے روک کر امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کریں، یہی افغان تنازع کا واحد اور پُر امن حل ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے منگل کو نیوز کانفرنس کے دوران طالبان کے حملوں کو نقصان دہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ میدانِ جنگ میں جیت نہیں سکیں گے۔ لہذا اُنہیں بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
اسٹولٹن برگ نے طالبان حملوں کو امن عمل کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان تنازع کو بات چیت سے حل کرنے کا یہی ایک پرامن راستہ ہے۔
اسٹولٹن برگ نے بین الافغان مذاکرات کے لیے افغان حکومت کی طرف سے ایک جامع مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کی تمام کوششوں کی بھر پورحمایت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیٹو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی حمایت کرتا ہے جس میں قیدیوں کے تبادلے کی شرائط بھی شامل ہیں۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے بیان پر تاحال طالبان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن حال ہی میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی امن معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کے غیر عسکری اہداف کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
امریکہ نے طالبان کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں تعینات امریکی فورسز معاہدے کی پوری طرح پابندی کر رہی ہیں۔
افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے ایک ترجمان سونی لیگٹ نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ امریکہ معاہدے کے تحت افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے کی صورت میں اُن کا دفاع کرنے کا پابند ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ معاہدے کے بعد طالبان پر تشدد میں کمی پر مسلسل زور دے رہا ہے۔
طالبان اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کا محور بھی تشدد کم کرنے پر رہا تاکہ بین الافغان مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول بن سکے۔
افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد اب تک 83 عام افغان شہری ہلاک جب کہ 119 زخمی ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے ان میں سے نصف ہلاکتوں کا الزام طالبان پر اور باقی کا الزام شدت پسند گروپ داعش و دیگر گروپس پر عائد کیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے رولینڈ کوبیا نے ایک ٹوئٹ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر ہونے والی پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔
اُن کے بقول اسی جذبے کو جاری رہنا چاہیے تاکہ طالبان کے پانچ ہزار اور افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی سے پہلے بین الافغان مذاکرات شروع ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ تشدد میں کمی کے ساتھ قیدیوں کی رہائی آسان ہو گی لیکن جنگ بندی کے ذریعے یہ عمل زیادہ قابل قبول ہو گا۔
امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے پہلے افغان حکومت کو طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنا ہیں جس کے بدلے طالبان ایک ہزار افغان قیدیوں کو رہا کریں گے۔
اب تک افغان حکومت نے طالبان کے 360 سے زائد قیدیوں کو رہا کیا ہے جب کہ طالبان نے بھی افغان حکومت کے صرف 20 قیدی رہا کیے ہیں۔