فوجی چوکی پرحملے کا کوئی جوازنہیں تھا: ترجمان پاکستان فوج

پشاور: پاکستان کے نیم فوجی دستے کا گشت

نہ طالبان اِس علاقے میں موجود تھے ، نہ ہی یہاں کسی طرح کی دہشتگردی ہو رہی تھی۔ لہٰذا، اِس ضمن میں یہ استدلال قابلِ قبول نہیں ہو گا کہ طالبان کےہدف کو نشانہ بناتے ہوئے کوئی غلطی واقع ہو گئی: تجزیہ کار

نیٹو افواج کے حملے میں پاکستانی فوج کے بھاری جانی نقصان پر اپنے ردِعمل میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اطہر عباس نے ’وائس آف امریکہ‘ کی پشتو سروس سے گفتگو میں اِس کارروائی کو ’گھناؤنا اقدام‘ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مہمند ایجنسی پر پاکستان کی فوج کا مکمل کنٹرول ہے، لہذا، اُن کے بقول،’ یہاں ایسے حملے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا‘۔

اِس موٴقف کی تائید کرتے ہوئے سابق میجرجنرل راحت لطیف نے کہا کہ، ’نہ طالبان اِس علاقے میں موجود تھے اور نہ ہی یہاں کسی طرح کی دہشتگردی ہو رہی تھی‘۔

لہٰذا، اُن کے بقول، اِس ضمن میں یہ استدلال قابلِ قبول نہیں ہو گا کہ طالبان کےہدف کو نشانہ بنانے میں کسی طرح کی کوئی غلطی ہو گئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ 2 مئی کے واقعے کے بعد پاکستان کی فوج کے لیے’یہ ایک انتہائی ناخوشگوار پیش رفت ہے‘۔ اُن کے بقول، اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کی جمہوری قیادت ایک واضح سمت کا تعین کرے کہ اِس طرح کے واقعات پر فوج کس طرح کی کارروائی کی مجاز ہے۔

تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ اِس طرح کے حملےبظاہرنیٹو کی انٹیلی جنس کی بہت بڑی ناکامی ہے اور یہ کہ تحقیقات کے بعد ہی اِس بات کا تعین کیا جا سکے گا آیا پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور ڈیفنس کمیٹی کے میمبر عبدالغنی تالپور نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت نے اس واقعے کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور عوام الناس بھی اس واقعے پرسڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے اتحادی ملک کا دوست سمجھ کر احترام کرتا ہے، جس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزور ہے۔ اُن کے الفاظ میں،پاکستان کے پاس لاکھوں کی تعداد میں پروفیشنل فوجی ہیں ،اور یہ کہ اِس بارے میں کسی کوکسی مغالطے میں نہیں رہنا چاہیئے۔

دوسری جانب، افغانستان میں انٹرنیشل سکیورٹی اسسٹنس فورس کے ترجمان لفٹیننٹ جنرل گریگ کیلی نے ’وائس آف امریکہ‘ کے’ دیوا ریڈیو‘ سے گفتگو میں اِس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور پاکستانی فوج کے ہلاک اور زخمی ہونے والے سپاہیوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ واقعے کی اعلی سطحی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ نیٹو کی قیادت پاکستان کے ساتھ سکیورٹی معاملات پر تعاون میں بہتری لانے کا عزم رکھتی ہے۔

تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی اور طلعت مسعود نے کہا کہ اس واقعے کے سیاسی اثرات کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت اپنے ردعمل میں یک زبان ہے۔