صوبہٴ سندھ کے محکمہٴ ثقافت نے نیشنل میوزیم کراچی کو ’انمول‘ بنا دیا ہے۔ٹھٹھہ کی تاریخی شاہ جہاں مسجد کے 350 سال قدیم پتھروں کو کراچی منتقل کرکے میوزیم کے داخلی دروازے پر بالکل ویسا ہی دروازہ تعمیر کردیا گیا ہے جیسا شاہ جہاں نے مسجد کی تعمیر کے وقت تعمیر کرایا تھا۔ وہی رنگ و روپ، وہی مخصوص مغلیہ دور کا طرز تعمیر۔
محکمہٴ ثقافت کا یہ اقدام واقعی قابل ستائش اور انمول ہے۔ اس سے صوبے کی ثقافت کو فروغ ملے گا اور نئی نسل کو اسے سمجھنے اور دیکھنے کا قیمتی موقع۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی معاون خصوصی برائے ثقافت و سیاحت شرمیلا فاروقی جنہوں نے باقاعدہ اس دروازے کا افتتاح کیا، ان کا کہنا ہے ’کراچی میوزیم کا مرکزی گیٹ شاہ جہاں مسجد کے 350 سال قدیم پتھروں سے صرف آٹھ ماہ کی مختصر مدت میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اگلے مرحلے میں پکا قلعہ اورقلعہ رنی کوٹ کو بحال کیا جائے گا۔ ان اقدامات کا مقصد ثقافت کو فروغ دینا ہے۔‘
تاریخی جامع مسجد شاہ جہاں، ٹھٹھہ
نام سے بھی ظاہر ہے کہ یہ مسجد مشہور مغل بادشاہ شاہجہاں نے 1054 ہجری بمطابق 1647 عیسوی میں تعمیر کرائی تھی۔تاریخی حوالوں کے مطابق مسجد کی تعمیر پر9 لاکھ شاہجہانی روپے خرچ ہوئے جو شاہی خزانے سے ادا کیے گئے تھے۔
مسجد کی بنیادیں 12تا 15 فٹ گہری ہیں جو پہاڑی پتھروں پر مشتمل ہیں۔ مسجد کے پانچ دروازے ہیں جن میں ایک مرکزی دروازہ اور دو چھوٹے دروازے اطراف میں ہیں جبکہ ایک ایک دروازہ شمالی اور جنوبی دیواروں کے وسط میں ہے۔
مسجد میں چھوٹے بڑے 100گنبد ہیں جن میں6 بڑے اور باقی چھوٹے ہیں۔ کل 94 ستون ہیں۔ یہاں ایک وقت میں 20 ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔
مسجد کے گنبدوں کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ خطیب و امام کی تلاوت و خطبہ بغیر کسی صوتی آلے کے پوری مسجد میں صاف سنائی دیتی ہے۔مسجد میں ہوا کی آمد ورفت کا انتظام اس طرح رکھا گیا ہے کہ پوری مسجد میں کہیں ہوا کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔
اپنی اہمیت کے باعث یہ مسجد 1993ء سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی عبوری فہرست میں شامل ہے۔