جب دسمبر میں ’ناسا‘ نے مستقبل کے خلانوردوں سے درخواستیں طلب کرنے کا اعلان کیا، خلائی ادارے کو شاید یہ توقع نہیں تھی کہ اُسے 18000 سے زائد درخواستیں موصول ہوں گی۔ پچھلے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ سنہ 2012ء میں اِس کے تیسرے حصے کے مساوی افراد نے جب کہ سنہ 1978 میں 8000 افراد نے درخواستیں دی تھیں۔
ناسا کے منتظم اعلیٰ، چارلی بولڈن، جو ایک سابقہ خلانورد ہیں، کہا ہے کہ ’’میرے لیے، یہ بات کسی طور پر حیران کُن نہیں ہے کہ مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کی اتنی بڑی تعداد مریخ کے آزمائش طلب سفر کے سلسلے میں میں اپنا حصہ ڈالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’خلانورد کے طور پر، ِاس گروپ کے لیے، چند انتہائی باصلاحیت مرد و خواتین کو چُنا جائے گا، جنھیں امریکی سرزمین سے پرواز بھرنے والے امریکی ساختہ خلائی گاڑی میں خلا بھیجا جائے گا‘‘۔
اب، خلائی ادارہ اِن درخواست دہندگان میں سے آٹھ سے 14 افراد تک کے چناؤ کے کام کا آغاز کرے گا۔ ناسا نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں، ادارہ 2017ء میں اعلان کرے گا۔
برائن کیلی، ٹیکساس میں قائم ’جانسن اسپیس سینٹر‘ پر فلائیٹ آپریشنز کے سربراہ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اتنی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی ہیں، اب ہمارے امتحان کا مرحلہ ہے۔ تاہم، یہ بات خوش آئند ہے کہ لوگوں کی اتنی تعداد یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ ناسا کا یہ سنسنی خیز مشن اُن کے لیے ایک بڑے موقع کا درجہ رکھتا ہے۔ میں ایسے درخواست دہندہ باصلاحیت مرد و خواتین سے ملنے کا منتظر ہوں جو اس اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔‘‘
کامیاب ہونے والے افراد دو برس تک جانسن سینٹر پر تعینات رہیں گے، جہاں وہ خلائی گاڑی کے نظاموں کے بارے میں، اور خلائی چہل قدمی کا ہنر اور ٹیم ورک کا کام، روسی زبان اور دیگر درکار مہارت سیکھیں گے‘‘۔
وہ لوگ جو کامیابی کے ساتھ تربیت مکمل کریں گے، اُنھیں چار میں سے ایک خلائی جہاز پر تعینات کیا جائے گا، جن میں سے ’انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن‘، ناسا کے ’اوریون اسپیس کرافٹ‘ یا، پھر، تشکیل دیے جانے والے دو تجارتی خلائی جہازوں پر تعینات کیا جائے گا۔