نقيب اللہ کيس میں گرفتار سابق پولیس افسر راؤ انوار پر غير قانوني اسلحہ اور دھماکہ خيز مواد رکھنے کے مقدمے میں ضمانت کی درخواست پر فيصلہ محفوظ کر ليا گيا۔ عدالت اس سے قبل راؤ انوار کو قتل کی دفعات کے تحت درج علیحدہ مقدمے میں پہلے ہی ضمانت دے چکی ہے۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ سمیت پانچ افراد کے جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے مقدمات کی سماعت ہوئی۔
واقعے کی دوسری ایف آئی آر میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر الزام ہے کہ ان سے مقابلے میں دھماکہ خیز اور غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا تھا۔ محفوظ کیا گیا فیصلہ 20 جولائی کو سنایا جائے گا۔
دوسری جانب کیس کے مدعی اور نقیب اللہ کے والد خان محمد کے وکیل صلاح الدین پنہور ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ راؤ انوار جب ریمانڈ پر تھے تب ہی سے انہیں تحفظات تھے۔ ہم نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اُنھیں وی آئی پی پروٹوکول نہ دیا جائے۔ لیکن، ہماری استدعا کو نہیں سنا گیا۔ اسی لئے عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔
مدعی مقدمہ کی جانب سے کیس دوسری عدالت کو منتقل کرنے کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی جاچکی ہے جو ابھی سماعت کے لئے مقرر نہیں ہوئی۔
13 جنوری 2018 کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ سمیت 5 ملزمان کو کالعدم تنظیم کا دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید پر جب اس بارے میں پولیس کی محکمانہ تحقیقات کرائی گئی تو اس میں انکشاف کیا گیا کہ یہ پولیس مقابلہ ایک جعلی مقابلہ تھا۔