حال ہی میں بالی وڈ فلم ساز کرن جوہر کی فلم 'جگ جگ جیو' کا ٹریلر ریلیز کیا گیا جس میں پاکستان کے گلوکار ابراالحق کے سپر ہٹ پنجابی گانے 'نچ پنجابن' کی گونج سنائی دی گئی۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ابرارالحق کا کوئی گانا بھارتی فلموں میں استعمال کیا گیا ہو۔ اس سے قبل بھی ان کے مشہور گانے 'بلو دے گھر'، 'دسمبر' اور 'بے جا سائیکل تے' سمیت کئی گانے سرحد پار فلموں میں استعمال کیے گئے۔
ٹریلر سامنے آنے کے بعدابرارالحق نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا تھا کہ یہ بالی وڈ میں ان کا نقل ہونے والاچھٹا گانا ہے، لیکن اس بار وہ چپ نہیں رہیں گے اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
'جگ جگ جیو' میں ابرارالحق کا گانا استعمال کرنے پر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ابرار الحق کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی بھارتی فلم کو 'نچ پنجابن'کے حقوق فروخت نہیں کیے اور وہ اس گانے کو بلا اجازت استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
دوسری جانب برطانیہ میں پاکستانی گانوں کو پروموٹ کرنے والے ادارے 'مووی باکس' نے ابرار الحق کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ 'نچ پنجابن' کو بھارت کے فلم پروڈیوسرز نے باقاعدہ ان کی اجازت سے استعمال کیا ہے۔
بھارت کی میوزک کمپنی'ٹی سیریز' نے بھی پیر کو اس معاملے پر ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
'ٹی سیریز' نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ "انہوں نے 'نچ پنجابن' کے حقوق اس ہی کمپنی سے لیےہیں جس نے اسے آئی ٹیونز پر یکم جنوری 2002 کو ریلیز کیاتھا۔"
ان کے مطابق 'مووی باکس ریکارڈ لیبل ' کے پاس اس گانے کے تمام حقوق ہیں اور وہ ضرورت پڑنے پر اس کی تمام تر دستاویز ات بھی پیش کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ سن 2019 میں ابرار الحق نے اپنا ہی گانا 'بلو' کوک اسٹوڈیو کے لیے گایا تھا اور اس وقت بھی انہیں ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گانے کو کچھ وقت کے لیے کوک اسٹوڈیو کے یوٹیوب چینل سے بھی ہٹا دیا گیا تھا۔
اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے وائس آف امریکہ نے ابرار الحق سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کردیا۔
' تھرڈ پارٹی رائٹس اور رائلٹی کے حوالے سے فن کاروں کو آگاہی نہیں'
پاکستانی ریکارڈ لیبل 'لال سیریز 'کے بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر حسن علی آفندی کا کہنا ہے کہ بالی وڈ فلم میں پاکستانی گانے کا استعمال کرنادرست نہیں۔ لیکن اگر ٹی سیریز کی جانب سے یہ کہا جا رہاہے کہ انہوں نے 'نچ پنجابن' کے حقوق جائز طریقے سے حاصل کیے ہیں تو ان کی بات میں وزن ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حسن علی آفندی نے کہا کہ "آج سے 20 برس قبل جب 'نچ پنجابن' ریلیز ہوا تو اس وقت یو ٹیوب اور میوزک سننے والی کوئی ایپلی کیشنز نہیں تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ ابرار الحق نے پاکستان سے باہر اپنے البم کے حقوق کسی کمپنی کو فروخت کیےہوں جس نے آگے جاکر ٹی سیریز کو اس گانے کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہو۔"
SEE ALSO: بالی وڈ کے مشہور گانے جو پاکستانی گانوں کی نقل ہیںان کامزید کہنا تھا 'ٹی سیریز' نے اُس وقت یوٹیوب پر اپنے گانے ڈالنا شروع کیے تھے جب اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ یہ کہنا کہ وہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کررہے ہیں تو یہ درست نہیں ہوگا۔ ان کے بقول گانا پاکستان کا چوری تو ہوا ہے لیکن اگر حقوق لے کر کیا گیا ہے تو اس پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
حسن علی آفندی کے خیال میں پاکستان میں تھرڈ پارٹی رائٹس اور رائلٹی کے حوالے سے فن کاروں کو آگاہی نہیں تھی، اس لیے ہوسکتا ہے کہ ابرار الحق نے کنفیوژ ہوکر بیان دے دیا ہو کہ ان سے کسی نے اجازت نہیں لی۔ پہلے دن کے بعد سے ان کی خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔
کریئر کے آغاز میں ہم سب کنٹریکٹ کی باریکیوں سے ناواقف تھے: فخرِ عالم
اداکار اور میزبان فخرِ عالم کا کہنا ہے کہ جب سن 2010 میں فردین خان اور سشمیتا سین کی فلم 'دلہا مل گیا' میں ان کا گانا استعمال کیا گیا تھا تو پہلے انہیں غصہ آیا لیکن بعد میں وہ انہی پروڈیوسرز کو عدالت لے گئے اور سرخرو ہوکر واپس لوٹے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "بالی وڈ میں ہمارے گانے بڑے آرام سے چوری ہو جاتے ہیں اور کریڈٹ بھی نہیں ملتا جو کہ موسیقار، گلوکار اور شاعر سب کے ساتھ زیادتی ہے۔"
ان کے بقول "میرا گانا 'حسن والوں' نہ تو 'نچ پنجابن' کی طرح مشہور تھا اور نہ ہی پاکستان سے باہر کوئی اتنا مقبول تھا کہ اسے کاپی کرلیا جاتا۔ لیکن جب امیت کمار اور مونالی ٹھاکر کی آواز میں وہی گانا مختلف بول کے ساتھ فلم کی تشہیر میں استعمال ہوا تو میں نے خاموش نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور اس سے مجھے ہی فائدہ ہوا۔"
SEE ALSO: وہ 11 مشہور پاکستانی گانے جو حقیقت میں پاکستانی نہیںفخرِعالم نے مزید کہا کہ انہوں نے جب فلم پروڈیوسرز کو عدالت لے جانے کی دھمکی دی اور اپنے وکیل کے ذریعے لندن میں ان کے ڈسٹری بیوٹر کو نوٹس بھیجا، تب کہیں جاکر معاملہ نمٹا اور 'آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ 'کے ساتھ ساتھ انہیں ایک معافی نامہ بھی دیا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کریئر کے آغاز میں ہم سب کنٹریکٹ کی باریکیوں سے ناواقف تھے۔ ابرار الحق کو بھی اس معاملے میں سمجھ داری سے کام لینا چاہیے تاکہ آئندہ کسی اور موسیقار اور گلوکار کا گانا چوری کرنے سے پہلے بھارتی موسیقار دس مرتبہ سوچیں۔