اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ ہائی کورٹ کی جانب سے وزارت قانون کو لکھے گئے خط اور ارشد ملک کے حلفیہ بیان کو نواز شریف کی اپیل کے ساتھ منسلک کیا جائے۔
جج ارشد ملک کا بیان حلفی بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے نوازشریف اور حسین نواز کے ساتھ ملاقاتوں کا اعتراف کیا اور دھمکیاں دینے اور رشوت کی پیشکش کا بتایا ہے۔
ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی ہدایت پر رجسٹرار نے وزارت قانون کو خط لکھا کہ وزارت قانون جج ارشد ملک کی خدمات واپس لی جائیں۔ ارشد ملک کو ڈیپوٹیشن پر احتساب عدالت میں جج لگایا گیا تھا اور ان کی خدمات واپس پنجاب کے حوالے کی جائیں گی۔ بعد ازاں وفاقی وزیر فروغ نسیم نے ان کو ہٹانے کی تصدیق کر دی۔
جج ارشد ملک کا بیان حلفی
اس فیصلے سے کچھ دیر قبل جج ارشد ملک نے ویڈیو اسکینڈل پر قائم مقام چیف جسٹس ہائی کورٹ کو خط لکھ کر مریم نواز کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا۔
انہوں نے دیے گئے بیاں حلفی میں کہا کہ اس کیس میں مجھے بلیک میل کیا جاتا رہا اور ایک شخص نے مجھے ویڈیو دکھائی جو ٹیمپرڈ تھی اور غیر اخلاقی حرکات پر مبنی تھی۔ اپریل میں ناصر بٹ نے مجھے ملتان والی غیراخلاقی ویڈیو دھمکی کے طور پر دکھائی۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ ناصر بٹ نے مجھے دھمکی دی کہ آپ کو میاں صاحب سے ملاقات کرنا ہو کی جس کے بعد میں ناصر بٹ کے ساتھ جاتی عمرہ گیا۔ جج ملک نے لکھا کہ وہاں میری نواز شریف سے ملاقات ہوئی، وہاں ناصر بٹ نے دھمکیاں دے کر کہا کہ ہمیں فیصلے میں کوئی قانونی سقم بتا دیں، جو میں نے انہیں بتا دیے۔
ارشد ملک نے کہا کہ میں مئی میں عمرے پر سعودی عرب گیا جہاں مجھ سے حسین نواز کی فون پر بات ہوئی، انہوں نے مجھے بے پناہ پیسہ دینے کی پیشکش کی اور اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں میری اور میرے اہل خانہ کی رہائش کی بھی پیشکش کی گئی۔ جج ارشد ملک کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے سرکردہ افراد کا کہنا تھا کہ میں استعفی دے کر کہوں کہ فیصلہ دباؤ میں دیا، لیکن میں حلفیہ کہتا ہوں کہ فیصلہ حق اور انصاف کی بنیاد پر دیا اور میرے خلاف پریس کانفرنس میں سب جھوٹ دکھایا گیا ہے۔
عدلیہ پر دباؤ نہیں ڈالنے دیں گے، فروغ نسیم
وفاقی وزیرِ قانون نے اس معاملے پر آج اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ جج ارشد ملک کے بیان حلفی کی رو سے انہوں نے فیصلہ میرٹ پر کیا، جج نے اپنی دانست میں ایک کیس میں بریت اور دوسرے میں سزا سنائی۔ روغ نسیم نے کہا کہ بیان حلفی میں جج نے کہا کہ انہیں رشوت کی پیشکش ہوئی، جج کو رشوت یا دھمکی دینے پر سزائیں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے، ہم نہ تو کسی کو رعایت دے رہے ہیں اور نہ ہی زیادتی کر رہےہیں تاہم حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے گی عدلیہ پر دباؤ ڈالا جائے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ نیب قانون میں جج کو دھمکانے پر سیکشن 31 کے تحت سزا موجود ہے۔ وزیرِ قانون نے کہا کہ جب تک ہائی کورٹ نواز شریف کیس کا کوئی فیصلہ نہیں کرتی جج کے خلاف سزا جزا کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا تاہم دیکھنا پڑے گا کہ کیا فیصلہ دباؤ میں دیا گیا کہ نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کا ردعمل
نواز شریف کے صاحبزادی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جج کو فارغ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اعلٰی عدلیہ نے حقائق کو تسلیم کر لیا ہے۔ ایسے میں جج کے غلط فیصلے کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں مریم نواز نے لکھا کہ اعلٰی عدلیہ نواز شریف کے خلاف فیصلے کو فوری طور پر کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، آج ان کی بے گناہی ثابت ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟
سابق پراسیکیوٹر نیب، راجہ عامر عباس کہتے ہیں کہ ایک جج جو خود تسلیم کر رہا ہے کہ اس پر دباؤ تھا لیکن وہ اس کے حوالے سے آگاہ بھی نہیں کر رہا تو ایسے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے اس کو ہٹانے کا فیصلہ درست ہے۔
نوازشریف کو کیا ریلیف مل سکتا ہے؟؟
اس کیس میں نوازشریف کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس حوالے سے صحافی اویس یوسفزئی کہتے ہیں کہ ماضی میں ایگزیگٹ جعلی ڈگری کیس میں جج عبدالقادر ممین کے رشوت لینے کے اعتراف کے بعد ایف آئی اے کی درخواست پر ایگزیگٹ کے مالک شعیب شیخ کی بریت منسوخ کر دی گئی تھی اور ری ٹرائل کا حکم دیا گیا تھا جس کے بعد شعیب شیخ گرفتار ہوا اور پھر اسے سزا سنائی گئی۔ اس کیس میں بھی اب جج کے موقف کو بظاہر تسلیم نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ان کی خدمات واپس کر دی ہیں۔
نوازشریف کے کیس میں بھی امکان ہے کہ ان کی اپیل میں اب یہ نکتہ شامل ہو جائے گا کہ جج کا کردار تسلی بخش نہ تھا اور ان کی طرف سے دیا گیا فیصلہ بھی دباؤ کا شکار نظر آرہا ہے، لہذا نوازشریف کی سزا کالعدم قرار دیکر انہیں رہا کرنے اور ری ٹرائل کا حکم دیا جاسکتا ہے۔
ویڈیو لیک کیس سپریم کورٹ میں
دوسری جانب جج ارشد ملک ویڈیو لیک اسکینڈل کیس سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 16 جولائی کو اس کی سماعت کرے گا۔
یہ درخواست سابق ایم پی اے اشتیاق مرزا کی طرف سے دائر کی گئی ہے جس میں درخواست گزار نے ویڈیو لیک معاملے کی مکمل تحقیقات کی استدعا کی ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ جج ارشد ملک نے جو رشوت کی آفر کا الزام لگایا ہے وہ سنجیدہ نوعیت کا ہے اور 6 جولائی کی مریم نواز کی پریس کانفرنس کا ریکارڈ پیمرا سے طلب کیا جائے۔ درخواست کے مطابق اس ویڈیو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کرتی اور اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے لہذا وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے اقدامات کرے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 16 جولائی کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔