میانمار: حکومت اور آٹھ مسلح نسلی گروپوں کے مابین امن معاہدہ

امریکی محکمہ خارجہ نے اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے دیرپا امن کے قیام کی کوششوں کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

میانمار کی حکومت اور آٹھ نسلی مسلح گروپوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں جسے حکام ملک میں امن کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں۔

دستخط کرنے کی تقریب جمعرات کو دارالحکومت نیپیدوا میں ہوئی جس میں صدر تھین سین، باغی رہنماؤں اور متعدد ملکوں کے سفیروں نے شرکت کی۔

صدر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ "قومی جنگ بندی معاہدہ ایک مستقل کی نسلوں کے لیے ایک تاریخی تحفہ ہے۔ گوکہ یہ معاہدہ ابھی پورے ملک کے لیے نہیں ہے لیکن ہم سخت کوشش کریں گے کہ دیگر گروپوں کے ساتھ بھی معاہدہ کر سکیں۔"

امریکی محکمہ خارجہ نے اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے دیرپا امن کے قیام کی کوششوں کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

تقریباً دو سال سے زائد عرصے تک اس معاہدے پر بات چیت ہوتی رہی ہے لیکن اب بھی اس کے موثر ہونے سے متعلق خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

معاہدے پر دستخط کے لیے بلائے گئے 15 گروپوں میں سے سات نے ان اختلافات پر کہ کسے اس میں شامل ہونا چاہیے، شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ ان گروپوں کی طرف سے ملک کی نیم فوجی حکومت اور طاقت فوج پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔

یہ ناراض گروپ صدر تھین سین کی جنگ بندی معاہدے کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں جو کہ 2011ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے مختلف اصلاحات متعارف کروا چکے ہیں۔

"دی یونائیٹڈ وا اسٹیٹ آرمی" ملک کا سب سے زیادہ اور بڑا مسلح باغی گروپ تصور کیا جاتا ہے اور اس نے خود کو آغاز ہی سے امن عمل سے علیحدہ رکھا اور یہ دستخط کی تقریب میں بھی شریک نہیں ہو رہا۔

کاچن انڈیپینڈنس آرگنائزیشن نامی دوسرا گروپ جو کہ کاچن ریاست کے بڑے حصے پر تسلط جمائے ہوئے ہے، وہ بھی اس معاہدے میں شریک نہیں۔

2011ء میں سترہ سالہ جنگ بندی معاہدے کے خاتمے کے بعد اس گروپ کے جنگجوؤں کی میانمار کی فوج کے ساتھ تواتر سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔