جمعے کے روز میانمار میں رائٹرز کے دو صحافیوں کی جانب سے اپنے خلاف فیصلے اور 7 سال جیل کی سزا کے خلاف اپیل مسترد ہو گئی ہے۔
ہائی کورٹ کے جج آنگ ناینگ نے سزا کے بارے میں کہا کہ یہ ایک موزوں سزا تھی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق صحافیوں کے وکیل تھان زاو آنگ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ عدالت نے ان حقائق کو تسلیم نہیں کیا جو ہم نے اپیل کے دوران پیش کیے۔ اس لیے انہوں نے ہماری اپیل مسترد کر دی اور ان کی اب بھی وہی 7 سال کی سزا برقرار ہے جیسا کہ سابقہ عدالت کا فیصلہ تھا۔
رائٹرز کے ایڈیٹر ان چیف اسٹیفن ایڈلر نے وا لون اور کیو سو او کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’’وہ بدستور اس وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں کہ اقتدار میں موجود لوگ سچ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صحافت کوئی جرم نہیں ہے لیکن میانمر میں صحافت کی آزادی پر قدغن ہے اور وہاں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے وعدے پر بدستور شکوک شہبات برقرار ہیں۔"
عدالت کے باہر فیصلے پر اپنے رد عمل میں میانمر کے لیے یورپی یونین کی سفیر کرسٹین شومٹ نے کہا کہ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ میانمار کے صدر اس ناانصافی کی کسی ممکنہ معافی کے ذریعے تلافی کر دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اب یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ میانمار کے صدر پر منحصر ہے کہ وہ اس ناانصافی کو درست کریں اور یورپی یونین ایک بار پھر یہ اپیل کرتی ہے کہ ان صحافیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے دونوں صحافیوں کو دسمبر 2017 میں میانمار کے آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
اعلیٰ عدالت کے جج نے سزا کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ صحافیوں کے وکلاء نے ان کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد پیش نہیں کیے۔
اقوام متحدہ میانمار میں اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی وحشیانہ فوجی پکڑ دھکڑ کو نسلی تطہیر قرار دے چکا ہے۔