میانمار کی فوج کی جانب سے پیر کے روز ملک کے سرحدی علاقے میں فضائی حملوں سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ دیہاتوں میں رہنے والے بہت سے لوگ فرار ہو کر ہمسایہ ملک تھائی لینڈ میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
یہ فضائی حملے اُن علاقوں میں کئے گئے جہاں کارین نسل کے لوگ آباد ہیں، جس سے میانمار میں پہلے سے موجود بحرانی صورت حال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ ہفتے کے روز، میانمار کے طول و عرض میں ہونے والے مختلف مظاہروں میں سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے، جو کہ اب تک کا سب سے خونیں دن قرار دیا جا رہا ہے۔
میانمار کی حکومت، مزید اختیارات کا مطالبہ کرنے والی بہت سی نسلی اقلیتوں سے متصادم رہی ہے، اور کارین بھی ایسی ہی ایک اقلیت ہیں جس سے وہ برسوں سے گاہے گاہے متصادم رہی ہے۔ لیکن مبصرین فضائی حملوں کو باعثِ تشویش پیش رفت قرار دے رہے ہیں، اور ایسا اس وقت ہو رہا ہے، جب حکومت پہلے سے ہی فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
خیال ہے کہ اتوار کی رات کی گئی بمباری کارین نیشنل لبریشن آرمی کی جانب سے کیے جانے والے مبینہ حملے کے ردِ عمل میں کی گئی ہے، جس میں لبریشن آرمی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ہفتے کے روز میانمار کی ایک فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ گروپ کارین نسل کے لوگوں کے لیے وسیع تر خود مختاری کے لیے برسر پیکار ہے۔
امدادی کارکنوں کے مطابق، اتوار کی رات ہونے والی بمباری سے پہلے، میانمار کے طیاروں نے کارین کی ایک گوریلا چوکی پر حملہ کیا تھا، جس میں دو کارین چھاپہ مار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
ہفتے کی شب ہی، میانمار کی فوجی طیاروں نے ایک گاؤں پر دو دفعہ بمباری کی، جس سے کم ازکم دو دیہاتی ہلاک ہو گئے۔
میانمار کے دیہاتوں میں انسانی ہمدردی کے تحت، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ پہنچانے والی امدادی تنظیم فری برما رینجرز سے وابستہ ڈیو یوبینک کا کہنا ہے کہ میانمار کے لڑاکا طیاروں نے اتوار کی رات کارروائیاں کیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ( اے پی)کے مطابق، ان کارروائیوں کے دوران، ایک بچہ شدید زخمی ہو گیا، تاہم اس کے علاوہ کسی ہلاکت کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔ اس کارروائی سے ڈھائی ہزار کے قریب افراد، تھائی لینڈ کے شمالی صوبے مائی ہونگ سون بھاگ گئے۔
تھائی لینڈ کے وزیر اعظم، پرایوت چن اوچا نے پیر کے روز تسلیم کیا کہ تھائی لینڈ کی مغربی سرحدپر مسائل ابھر رہے ہیں، اور ان کی حکومت ہمسایہ ملک سے لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد کے لیے تیاریاں کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر کے آئیں، تا ہم وہ انسانی حقوق کو بھی مدِ نظر رکھیں گے۔
جب پہلے سے تھائی لینڈ میں پناہ حاصل کرنے والے میانمار کے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اِن لوگوں کے لیے کچھ جگہوں کو تیار کیا گیا ہے، لیکن ہم فی الوقت ریفیوجی سینٹرز کے بارے میں اس وقت بات نہیں کرنا چاہیں گے، کیونکہ ہم وہاں تک نہیں جائیں گے۔
فری برما رینجرز کے مطابق، اندازً دس ہزار افراد میانمار کی شمالی کارین ریاست میں بے گھر ہوئے ہیں۔
میانمار میں سیاسی قیدیوں کی مدد کے لئے قائم ایک تنظیم 'اسسٹینس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز' کے مطابق، اتوار کے روز تک، ملک میں ہونے والی فوجی بغاوت میں کم از کم 469 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اے پی کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن نے رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے میانمار کی صورتحال کو "شرمناک اور وحشت خیز" قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں، کہ بہت سے لوگ بلا جواز ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ اس صورت حال پر رد عمل ظاہر کرنے پر کام کر رہی ہے۔
تاہم اس بارے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ امریکہ پہلے ہی میانمار کی جنتا پر پابندیاں عائد کر چکا ہے، لیکن ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔
اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر سفارتکاروں نے اتوار کے روز بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ممکنہ طور پر میانمار کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر مشاورت کرے گی۔
سلامتی کونسل نے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے جمہوریت کی بحالی پر زور دیا ہے، لیکن میانمار کی فوج پر ممکنہ پابندیوں پر غور نہیں کیا۔