امریکی کانگریس کیلئے ممکنہ طور پر منتخب ہونے والی پہلی دو مسلم خواتین

ڈیٹرائٹ مشی گن سے کانگریس کیلئے اُمیدوار راشدہ طلیب۔ فائل فوٹو

امریکہ میں اس سال نومبر میں ہونے والے ایوان نمائندگان کے وسط مدتی انتخابات کے حوالے سے توقع ہے کہ مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والی دو خواتین پہلی مرتبہ امریکی ایوان نمائندگان کی رکن بنیں گی۔ وہ انڈیانا کے کانگریس مین آندرے کارسن کے ساتھ ایک ایسی مذہبی برادری کی رکن کی حیثیت سے امریکہ کی قومی حکومت کا حصہ بنیں گی جسے امریکہ میں بہت سے لوگ بہتر انداز میں سمجھ نہیں پائے ہیں۔

امریکہ میں مذہبی اور نسلی شناخت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور یوں یہ دونوں خواتین کامیابی کی صورت میں امریکی کانگریس کی بدلتی ہوئی شکل کی نمائندگی کریں گی۔

اس کی شروعات مشی گن سے ہوئی اور یہ مینے سوٹا میں بھی جاری رہی۔ الہان عمر اور راشدہ طلیب میں سے کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہے کہ اس کا اختتام واشنگٹن ڈی سی میں ہو گا۔ مشی گن سے کانگریس کیلئے اُمیدوار راشدہ طلیب کہتی ہیں کہ یہ جیت کانگریس میں محض ایک سیٹ جیتنے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک طاقتور پیغام ہے۔

مینے سوٹا سے کانگریس کیلئے اُمیدوار صومالیہ نژاد الہان عمر۔ فائل فوٹو

دونوں ریاستوں کے پرائمری الیکشن کے ووٹرز نے اگست میں یہ پیغام دیا کہ ایک مسلمان امریکی خاتون ایک ایسے وقت میں کانگریس میں اُن کی نمائندگی کرنے کیلئے تیار ہے جب اُن کے عقیدے کی مخالفت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ راشدہ طلیب کہتی ہیں، ’’میری ایک کیمپین منیجر ڈیانا نے ایک غیر منافع بخش تنظیم کو خیر باد کہتے ہوئے یہ فرائض سنبھالے تھے اور تنظیم کی ایک خاتون نے اُن سے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ یہ ادارہ چھوڑ رہی ہیں۔ تاہم ڈیانا نے کہا کہ آپ میرے بارے میں بالکل فکر نہ کریں کیونکہ میں مشی گن کی قانون ساز اسمبلی کیلئے منتخب ہونے والی پہلی خاتون کیلئے کام کروں گی اور میں اس کیلئے بہت پر جوش ہوں۔‘‘

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے سینٹر برائے ڈائیورسٹی اور جمہوریت کے ڈائریکٹر ایلون ٹِلری کہتے ہیں کہ ان خواتین کا ممکنہ طور پر امریکی کانگریس کیلئے منتخب ہو جانا ایک زبردست بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان لبرل ضلعوں سے دونوں خواتین کا منتخب ہو جانا کوئی حیرت کی بات تو نہیں ہے تاہم اُن کا اس مقام پر پہنچنا امیگریشن کے حق میں ایک زور دار تحریک کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مسلمان امریکہ کی کل آبادی کا صرف ایک فیصد ہیں۔ تاہم اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ اسلام 2040 تک امریکہ میں دوسرا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا اور راشدہ طلیب اور الہان عمر امریکی آبادی کی اس بدلتی شکل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ایلون کہتے ہیں، ’’یہ امریکہ کی حقیقی کہانی ہے۔ یہ آئرش امیگریشن، اطالوی امیگریشن اور پولش امیگریشن کی کہانی ہے۔ یہ مختلف نسلوں اور مذاہب کی داستان ہے اور حقیقت میں ایک اوسط امریکی کو یہی کچھ ہونا چاہئیے۔‘‘

طلیب فلسطینی تارکین وطن کی بیٹی ہیں۔ وہ مشی گن کے علاقے ڈیٹرائیٹ میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں جبکہ الہان عمر کی پیدائش صومالیہ میں ہوئی تھی لیکن وہ وہاں سے بھاگ کر کینیا میں قائم پناہ گذینوں کے ایک کیمپ میں چلی گئیں۔ بعد میں وہ مینے سوٹا کے شہر مینیاپولیس میں صومالیہ کی بڑھتی ہوئی کمیونٹی کا حصہ بن گئیں۔

دونوں خواتین ہی جنگ سے متاثرہ خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور اُنہوں نے سیاست کے دونوں دھاروں کی طرف سے اپنے مذہب کے بارے میں منافرت کا سامنا کیا۔ تاہم وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں جسے اُمید ہے کہ وہ نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں امریکی کانگریس کا کنٹرول حاصل کر لے گا۔ تاہم ان دونوں خواتین کو ابھی ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

طلیب کے خلاف کوئی اُمیدوار کھڑا نہیں ہوا ہے تاہم عمر کو رپبلکن پارٹی کے نسبتاً ہلکے اُمیدوار کا مقابلہ کرنا ہو گا جو بظاہر علامتی ہی ہو گا۔

کامیابی کی صورت میں ان دونوں خواتین کو جنوری میں ہونے والے کانگریس کے اگلے سیشن کے دوران امریکہ کی بارڈر سیکیورٹی اور امیگریشن جیسے مشکل مسائل سے نمٹنا ہو گا۔