بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہفتہ کی شام سرینگر کی جھیل ڈل کے کنارےمعروف موسیقار، پیانو نواز اور اداکار عدنان سمیع خان کا کانسرٹ منعقد ہوا۔ کنسرٹ کا اہتمام بھارتی وزارت داخلہ اور کشمیر کی ریاستی حکومت نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
اگرچہ کانسرٹ دیکھنے کے لئے دو ہزار سے زائد لوگ جمع ہوئے تھے لیکن ان کی اکثریت سرکاری ملازمین ، پولیس افسران اور ان کے اہلِ خانہ پر مشتمل تھی، جنہیں مخصوص رنگوں کے کوڈڈ دعوت نامے جاری کئے گئے تھے۔
کانسرٹ کے حوالے سے کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور عدنان سمیع خان کے درمیان ٹویٹر پر تند و تیز بیانات کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا ۔ عمر عبداللہ نے ٹویٹر پر کنسرٹ کی خالی کرسیوں پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ اُن کے کئی فالوورز کی رائے تھی کہ اس سے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی زمینی صورتِ حال کی عکاسی ہوتی ہے۔
عدنان سمیع نے اس پر جوابی ٹویٹ میں عمر عبداللہ کو لکھا "آپ ایک سابق وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ آپ کو ایک میوزک کنسرٹ سے یوں حواس باختہ نہیں ہونا چاہیے، جن لوگوں نے آپ تک یہ اطلاع پہنچائی ہے انہوں نے آپ سے جھوٹ کہا ہے"۔
عدنان سمیع نے تصویروں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کنسرٹ کو لوگوں کی ایک بھاری تعداد نے دیکھا اور ان کی موسیقی سے محظوظ ہوئے۔
بھارتی کشمیر کے محکمہ سیاحت کے عہدیداروں نے بتایا کہ کنسرٹ منعقد کرنے کا مقصد وادئ کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینا تھا تاکہ بیرونی دُنیا تک یہ پیغام پہنچایا جائے کہ کشمیر محض بندوقوں کی گھن گرج اور تشدد کا نام نہیں ہے۔
عدنان سمیع نے اپنے کنسرٹ سے پہلے جمعہ کو سرینگر کے ایک ہوٹل میں مقامی فنکاروں سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ موسیقی انسانوں میں تفرقات کو دور کرتے ہوئے امن اور اخوت کا پیغام عام کرنے میں مدد دیتی ہے۔
کانسرٹ کے لئے زبردست حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔بعض شہریوں نے کانسرٹ کے انعقاد کو کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف قرار دیا-
جولائی 2016 میں عسکری کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھارتی زیر انتظام کشمیر میں تقریباً چھ ماہ تک جاری رہنے والی بدامنی کی وجہ سے سیاحت کے شعبے کو شدید دھچکا لگا تھا- رواں سال کے دوران بھی وادی میں سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر رہی ہے ۔