رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دو نومبر 2007ء کو کابینہ کا کوئی اجلاس نہیں ہوا تھا۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی "ایف آئی اے" نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ خصوصی عدالت میں پیش کردی۔
بدھ کو ہونے والی سماعت میں تین رکنی بینچ کو اس رپورٹ کی نقول پیش کی گئیں جس میں تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے میں مبینہ طور ہر شریک افراد سے حاصل ہونے والی معلومات بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2007ء میں گورنر پنجاب خالد مقبول، گورنر سندھ عشرت العباد، قانونی ماہر شریف الدین پیرزادہ اور اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم کا تذکرہ ہے جنہوں نے ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ نے بھی ایمرجنسی کے نافذ کرنے سے متعلق پہلے سے علم ہونے کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دو نومبر 2007ء کو کابینہ کا کوئی اجلاس نہیں ہوا تھا۔
سابق فوجی صدر پر تین نومبر2007ء کو آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
پرویز مشرف پر 31 مارچ کو آئین شکنی سے متعلق فرد جرم عائد کی گئی تھی جن کی صحت سے انکار کرتے ہوئے وہ اپنے اس موقف کو دہراتے ہیں کہ تین نومبر کا اقدام اس وقت کے تمام متعلقہ حکومتی و عسکری عہدیداروں کی مشاورت سے ہوا لہذا صرف اکیلے ان پر ہی مقدمہ چلانا درست نہیں۔
سابق صدر کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انھیں تحقیقاتی رپورٹ کی نقل فراہم کی جائے جس پر خصوصی عدالت نے یہ رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت میں پیش کی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ 237 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 97 صحفات 24 گواہوں کے بیانات پر مبنی ہیں۔
عدالت نے 20 مئی کو سیکرٹری داخلہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
بدھ کو ہونے والی سماعت میں تین رکنی بینچ کو اس رپورٹ کی نقول پیش کی گئیں جس میں تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے میں مبینہ طور ہر شریک افراد سے حاصل ہونے والی معلومات بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2007ء میں گورنر پنجاب خالد مقبول، گورنر سندھ عشرت العباد، قانونی ماہر شریف الدین پیرزادہ اور اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم کا تذکرہ ہے جنہوں نے ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا۔
ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ نے بھی ایمرجنسی کے نافذ کرنے سے متعلق پہلے سے علم ہونے کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دو نومبر 2007ء کو کابینہ کا کوئی اجلاس نہیں ہوا تھا۔
سابق فوجی صدر پر تین نومبر2007ء کو آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
پرویز مشرف پر 31 مارچ کو آئین شکنی سے متعلق فرد جرم عائد کی گئی تھی جن کی صحت سے انکار کرتے ہوئے وہ اپنے اس موقف کو دہراتے ہیں کہ تین نومبر کا اقدام اس وقت کے تمام متعلقہ حکومتی و عسکری عہدیداروں کی مشاورت سے ہوا لہذا صرف اکیلے ان پر ہی مقدمہ چلانا درست نہیں۔
سابق صدر کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انھیں تحقیقاتی رپورٹ کی نقل فراہم کی جائے جس پر خصوصی عدالت نے یہ رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت میں پیش کی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ 237 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 97 صحفات 24 گواہوں کے بیانات پر مبنی ہیں۔
عدالت نے 20 مئی کو سیکرٹری داخلہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔