پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمے میں خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، اُن کی کابینہ کے وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کو بھی بحیثیت شریک ملزمان شامل کرنے کی درخواست منظور کر لی۔
اگرچہ پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے کئی دیگر افراد بشمول اُس وقت کے کور کمانڈروں کو بھی مقدمے میں شامل کرنے کی استدعا کی گئی تھی لیکن اُن کی درخواست جزوی طور پر منظور کی گئی۔
سابق صدر کے وکلاء کا یہ موقف رہا ہے کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ پرویز مشرف کا ذاتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اُس وقت کی وفاقی کابینہ اور کور کمانڈروں کے علاوہ صوبائی گورنر بھی مشورے میں شامل تھے۔
پرویز مشرف کی وکلا ٹیم میں شامل فیصل چوہدری نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُن کی درخواست جزوی طور پر منظور کر لی گئی۔
’’عدالت نے حکومت کو یہ حکم دیا ہے کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز، اُس وقت کے اُن کے وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کا نام استغاثہ میں شامل کر کے 15 روز میں درخواست دوبارہ جمع کروائی جائے۔‘‘
وفاقی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالت کے اس فیصلے پر قانونی مشیروں سے صلاح و مشورے کے بعد ہی ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔
زاہد حامد جو وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ میں شامل ہیں، اُن کی وزارت کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے میں خصوصی عدالت کی طرف سے زاہد حامد کو شریک ملزمان کی فہرست میں شامل کرنے کی ہدایت کے بعد، اُنھوں نے اپنا استعفی رضا کارانہ طور پر وزیر اعظم نواز شریف کو بجھوا دیا۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں حکومت نے اس مقدمے کی سماعت کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی تھی۔ جمعہ کو سنائے گئے فیصلے میں خصوصی عدالت کے ایک جج جسٹس یاور علی نے اختلافی نوٹ لکھا، وہ مزید افراد کو اس مقدمے میں شامل کرنے کے حق میں نہیں تھے۔
سابق فوجی صدر پر الزام ہے کہ اُنھوں نے نومبر 2007 میں ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کی۔ اسی بنا پر اُن کے خلاف تین رکنی خصوصی عدالت میں آئین شکنی کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
خصوصی عدالت نے سنگین غداری کے اس مقدمے میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر رواں سال 31 مارچ کو فرد جرم عائد کی تھی جب کہ اُن کا نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں بھی شامل ہے یعنی اُن کے ملک سے باہر جانے پر پابندی ہے۔
سابق صدر خود پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ 44 سال فوج میں خدمات سر انجام دینے کے باوجود اُنھیں غدار قرار دیا جا رہا ہے جو اُن کی دل آزاری کا سبب بن رہا ہے۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ استغاثہ میں مزید افراد کو بطور ملزم شامل کرنے سے اس مقدمے کی کارروائی طول پکڑے گی۔
سابق صدر پرویز مشرف گزشتہ سال تقریباً چار سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آئے تھے۔ ان کو سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور بزرگ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے علاوہ کئی دیگر مقدمات کا سامنا ہے۔
پرویز مشرف ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں، وہ اپنی علیل والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے تھے لیکن اُن کا نام ایسے افراد کی فہرست میں شامل ہے جن کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہوتی ہے۔
سابق صدر کے ملک سے باہر جانے پر پابندی کے بعد رواں سال 28 اکتوبر کو اُن کی علیل والدہ دبئی سے کراچی پہنچیں، اُن کے ہمراہ طبی عملہ بھی پاکستان آیا تھا۔
سابق صدر کو رواں سال دو جنوری کو سینے میں تکلیف کے بعد راولپنڈی میں امراض قلب کے اسپتال میں منتقل کرنا پڑا جہاں وہ کئی ہفتوں تک زیر علاج بھی رہے۔