پاکستانی پالیسی ساز حلقوں کو پاک۔امریکہ تعلقات میں فروغ کی توقع: مشاہد

فائل

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ’’اوباما دور کی افغان پالیسی کے کوئی واضح اہداف نہیں تھے اور نہی پاکستان کو امریکی افغان پالیسی سازی کی سمت پر اعتماد میں لیا گیا، اور امید کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائےگی‘‘

پاکستان سینیٹ کی کمیٹی براۓ دفائی امور کے چئیرمین، سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں پالیسی ساز حلقوں کو امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے زیر غور نئی افغان پالیسی میں پاکستان کی قربانیوں اور مفادات کا خیال رکھا جاۓ گا۔

یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئی افغان پالیسی کا اعلان جلد متوقع ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین، واشنگٹن کے مقتدر تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ میں پاکستان بھارت کے درمیان موجودہ تناؤ اور میڈیا کے کردار پر ہونے والے مذاکرے میں شرکت کے بعد، وائس آف امریکہ اردو سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’اوباما دور کی افغان پالیسی کے کوئی واضح اہداف نہیں تھے اور نہی پاکستان کو امریکی افغان پالیسی سازی کی سمت پر اعتماد میں لیا گیا، اور امید کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائےگی‘‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ حال ہی میں امریکی محکمہٴ دفاع کی جانب سے پاکستان کے لیے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے تحت مختص پچاس ملین ڈالر ادا نہ کرنے کے فیصلے کو اسلام آباد میں کیسے دیکھا جا رہا ہے، تو سینیٹر مشاہد کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک روایتی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے؛ اور اس روایتی ذہنیت کو اگر آپ پالیسی کے حوالے سے دیکھیں تو یہ ناکام ہو چکی ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’اگر آپ نے پاکستان کو ’انگیج‘ کرنا ہے، تو یہ ’پینلٹیز‘ یا سزا دینا۔۔ پچاس ملین ڈالر سے کچھ نہیں ہوگا۔ پالیسی ٹھیک کریں۔ ہمیں بتائیں پالیسی ہے کیا؟‘‘

سینیٹر مشاہد نے کہا کہ ’’صدر ٹرمپ کے زمانے میں ہمیں امید ہے کہ اگر ’پالیسی رییو‘ ہو رہا ہے تو نظر ثانی کریں کہ ماضی میں کیا غلطیاں ہوئیں۔۔ ان غلطیوں سے کیا سبق سیکھا ہے اور نئی چیز کیا ہے۔ فرق کیا ہے‘‘۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’’انہوں نے بات کی ہے کہ فرق لائیں گے۔۔علاقائی پالیسی لائیں گے؛ ’ریجنل اپروچ‘ ہوگی، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مثبت بات ہے۔ ریجنل اپروچ کا مطلب ہے کہ یہ نہیں کہ صرف افغانستان کی بات ہوگی یا ہندوستان کی بات ہوگی۔ پھر اس خطے کی بات ہوگی جس میں پاکستان ایک اہم کلیدی کردار ادا کر رہا ہے‘‘۔

دوسری جانب، پاکستان میں بری افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار امریکی فوج کے افغانستان میں کمانڈر جنرل جان نکلسن سے پیر کو ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق، ’’جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ بھارت اور افغانستان میں موجود کچھ حلقے ایسے وقت پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دے رہے ہیں جب واشنگٹن میں نئی افغان پالیسی کا اعلان جلد متوقع ہے‘‘۔