سندھ کے ضلع خیرپور میں مبینہ طور پر تشدد کے باعث ہلاک ہونے والی دس سالہ گھریلو ملازمہ فاطمہ کے قتل کے مقدمے میں پولیس نے ایک پیر سمیت تین افراد کو گرفتار کرکے چار روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔ بچی کی والدہ نے الزام عائد کیا ہے کہ بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے اور اس کا بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ پولیس نے تشدد کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قبر کشائی کی اجازت حاصل کر لی ہے۔
مقدمے میں پیر آف رانی پور کہلانے والے پیر سید اسد شاہ جیلانی سمیت ان کی اہلیہ حنا شاہ عرف سونیا شاہ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سید اسد علی شاہ کے گھر پر کام کرنے والی بچی فاطمہ دختر ندیم کا رواں ہفتے انتقال ہو گیا تھا۔ جس کی اطلاع اس کے والدین کو بذریعہ فون کی گئی اور کہا گیا کہ اس کی موت پیٹ میں مسلسل درد کی وجہ سے ہوئی اور اب آکر اس کی لاش لے جائیں۔ اس کے بعد والدین نے بغیر کسی پولیس کارروائی کے لاش کی تدفین بھی کردی۔
لیکن معاملہ اس وقت مشکوک ہو گیا جب پیر کے کمرے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر سامنے آئی جس میں بچی درد کے باعث زمین پر تڑپ رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی دلخراش ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ ہی دیر کے بعد بچی ساکت ہوجاتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اس کی موت واقع ہوچکی ہے۔
وائرل ویڈیو سامنے آنے کے بعد رانی پور پولیس نے دعوی کیا کہ بچی کے والدین سے بیانات لینے کے بعد کیس کو داخل دفتر کر دیا گیا ہے اور اس میں مزید کسی کارروائی کی ضروت ہی محسوس نہیں کی گئی۔
SEE ALSO: اسلام آباد: جج کی کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد، معاملہ ہے کیا؟تاہم جب سوشل میڈیا پر بچی پر مبینہ تشدد سے سوجے ہوئے اعضاء کی مزید ویڈیوز بھی سامنے آئیں تو اعلیٰ سطح پر معاملے کی انکوائری شروع ہوئی۔ جس کے بعد ڈی آئی جی سکھر نے کیس کی تحقیقات کے لیے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔
کمیٹی نے بچی کے قتل کے محرکات اور پس پردہ عوامل جائزہ لینے کے بعد قتل کے مرکزی ملزم اسد علی شاہ کو گرفتار کیا جس کے بعد مبینہ طور پر جرم کو چھپانے اور جرم کی اعانت کرنے پر ایس ایچ او رانی پور امیر چانگ اور متعلقہ اسپتال کے ڈاکٹر عبدالفتح میمن کو غیرقانونی مدد کرنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے اور مقدمہ درج کرکے تحقیات شروع کردی گئی ہیں۔
ایف آئی آر میں پولیس نے بچی کے والدکا بیان نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاطمہ پر حویلی کے اندر شدید تشدد بھی کیا جاتا تھا تاہم وہ کمزور ہونے کی بناء پر کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ اسے کرائم سین سے ایک ڈی وی آر بھی برآمد ہوا ہے جس کی تحقیقات جاری ہیں۔
سندھ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ جو بھی حقائق سامنے آئیں گے انھیں عوام کے ساتھ شیئر کیا جائیگا۔ اس حوالے سے پولیس شواہد اکٹھا کر رہی ہے اور دیگر ملزمان کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر ملزم پیر اسد شاہ نے اپنے بیان میں میں کہا ہے کہ وائرل ویڈیوز میری حویلی ہی کی ہیں لیکن اس نے بچی پر تشدد نہیں کیا ہے۔ اس نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ حویلی کے اندر کی ویڈیوز خود اس نے پولیس کو تفتیش کے لیے دی تھیں۔ پیر اسد کا مزید کہنا تھا کہ حویلی میں کام کرنے والی بچیاں مرید اپنی خوشی سے یہاں چھوڑ کر جاتے ہیں اور اس حوالے سے ان کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ مرکزی ملزم پیر اسد شاہ سابق رکن قومی اسمبلی پیر سید فضل علی شاہ جیلانی کے بھتیجے ہیں جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور ان کا خاندان خیرپور میں سیاسی اور مذہبی طور پر انتہائی بااثر خاندان سمجھا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ مذہبی استحصال، چائلڈ لیبر، پولیس کی غفلت، تشدد اور غیر قانونی حراست کا ہے جب کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غربت کے باعث لوگ اپنے بچوں کو کام کرانے پر مجبور ہیں۔ اس واقعے کی سوشل میڈیا پر بھی سخت مذمت کی جا رہی ہے اور ملزمان کو کڑی سزا دیے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
قانونی ماہر صفدر کناسرو نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پولیس کی ملزمان کی ملی بھگت سے فاطمہ کی میڈیکل اور کیمیکل رپورٹ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ کیس کی تفتیش اعلیٰ اور اہل تحقیقاتی کمیٹی کو دی جائے اور کیمیکل رپورٹ کی لاہور کی لیبارٹریز سے تصدیق کروائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں کام کرنے والا طبی اور لیبارٹری کا عملہ صوبائی حکومت کے زیر اثر ہے اور اس کی کوئی ساکھ نہیں جب کہ پیر اسد شاہ کا خاندان انتہائی طاقتور ہے۔