منو بھائی دنیا سے رخصت ہو گئے

منو بھائی۔ فائل فوٹو

کنوررحمان خاں

سونا چاندي کے تخليق کار اور سينير صحافي، نير احمد قريشي المعروف منو بھائي 85 برس کي عُمر ميں لاهور ميں انتقال کر گئے۔ وہ کچھ عرصہ سے سانس اور دل کے امراض ميں مُبتلا تھے۔

منو بھائی نے کالم نگاري ميں نام کمايا۔ انہوں نے اردو و پنجابي ادب اور شاعري کے فروغ کے لئے اپنی زندگی وقف کي۔ سونا چاندي، ابابیل اور انور علی سميت متعدد ڈرامہ سيريل اور ڈرامہ سيريز تخليق کئے۔

مُنو بھائی نے تھيليسيميا سے مُتاثرہ بچوں کے لئے سُندس فاؤنڈیشن کي بنياد رکھی اور بُہت سے فلاحي کاموں ميں اپنا حصہ ڈالا۔ سندس فاؤنڈیشن کے پیٹرن ان چیف یسٰین خان نے منو بھائی کے انتقال پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خلا کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا۔

'انہوں نے تھیسلمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے لیے بہت کام کیا، آج وہ تمام بچے یتیم ہو گئے ہیں'

سن 1956 ميں صحافتي کیرئیر کا آغاز کرنے والے منير احمد قُريشي المعروف مُنو بھائی کو اُن کي خدمات کے اعتراف ميں 2007ميں صدارتي تمغہ برائے حُسن کارکردگی سے بھي نوازا گیا۔ اپنے والد کی وفات پر کاشف قریشی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے والد سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ ان کی طرح ایک سایہ دار درخت تھے۔

'بیماری میں بھی مجھے تلقین کیا کرتے تھے کہ کبھی کسی کا دل نہیں دکھانا، ہمیشہ سب سے پیار اور خلوص سے پیش آنا'۔

ادبي دُنيا کي يہ قدآور شخصیت جمعرات19 جنوری کو اس جہان فاني سے رخصت ہوگئی۔ سن 1933 ميں پیدا ہونے والے دانشور مُنو بھائی کافی عرصے سے سانس اور دل کے عارضے ميں مُبتلا تھے۔

وہ پاکستان میں جنگ اخبار کے ساتھ منسلک تھے اور گریبان کے نام سے کالم لکھا کرتے تھے۔ اُن کي وفات پر صحافتي، ادبي، سماجي اور سياسي شخصيات نے گہرے رنج کا اظہار کيا ہے اور مُختلف پیغامات کے ذریعے کہا کہ مُنو بھائی کي خدمات ہمیشہ ياد رکھی جائیں گي۔