پاکستان کی ایک اعلیٰ عدالت نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے والے پولیس اہلکار ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت سنائی گئی سزائے موت کو تو کالعدم قرار دے دیا تاہم قتل کی دفعہ 302 کے تحت اُس کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔
جسٹس نور الحق قریشی اور جسٹس شوکت صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ممتاز قادری کی اپیل پر فیصلہ 11 فروری کو محفوظ کر لیا تھا۔
پیر کو جب مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے اردگرد سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
ممتاز قادری کے درجنوں حامی بھی عدالت عالیہ کی عمارت کے باہر موجود تھے لیکن اُن میں سے کسی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ممتاز قادری نے چار جنوری 2011ء کو سلمان تاثیر کو اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ کھانا کھا کر گھر واپس جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ ممتاز قادری گورنر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا۔
ممتاز قادری نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گورنر پنجاب کو قتل کرنے کی وجہ مقتول کی طرف سے ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم کی حمایت تھی۔
انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کی طرف سے ممتاز قادری کو دو مرتبہ سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی جس کے خلاف اُس نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی تھی۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چئیرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کیوں کہ ممتاز قادری اعتراف جرم کر چکا تھا اس لیے بظاہر یہ فیصلہ یقینی تھا۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون سے متعلق بیانات حساس معاملہ رہا ہے اور اس قانون کے بارے میں ایک عرصے سے بحث جاری ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ آزاد خیال حلقے یہ باور کرتے ہیں کہ اس قانون کو بعض لوگ غلط استعمال کر رہے ہیں جس کے سد باب کے لیے اس میں ضروری ترامیم کی جانی چاہیئں۔
تاہم مذہبی حلقوں سمیت ایک بڑی اکثریت کی طرف سے اس قانون میں کسی بھی ترمیم کی شدید مخالفت کی جاتی رہی ہے۔