اس کا نام نشیامون ہے۔ وہ فرعون کے عہد میں ایک راہب تھا اور 'ٹیبس' کے ایک مندر 'کرنک' میں پوجا کرتا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی نعش ہنوط کر کے تابوت میں بند کر دی گئی۔ دو سو سال پہلے یہ تابوت لندن کے ایک میوزیم میں پہنچ گیا۔
تین ہزار سال پرانے مصر کے اس دور میں بادشاہوں اور اہم شخصیات کو مرنے کے بعد خاص عمل سے ہنوط کر دیا جاتا تھا، تاکہ ان کی نعش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔ تصور یہ تھا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ وہ دوبارہ جی اٹھیں گے۔ چنانچہ بادشاہوں اور امرا کے مقبروں میں ان کی ہنوط شدہ نعشوں کے ساتھ زر و جوہرات اور غلاموں تک کو محفوظ کر دیا جاتا تھا۔
لیکن، نشیامون کا معاملہ دوسرے لوگوں سے ذرا مختلف تھا۔ وہ ایک بڑا راہب اور پجاری تھا اور اپنے آپ کو سچ کی آواز کہتا تھا۔ جس تابوت میں اس کی ہنوط شدہ ممی رکھی گئی تھی، اس پر بھی ’سچ کی آواز‘ کی عبارت کندہ ہے۔ نشیامون چاہتا تھا کہ جب وہ زندہ ہو کر بولنا شروع کرے گا تو پھر سے سچ کی روشنی پھیلائے گا۔
نشیامون خود تو زندہ نہیں ہوا، لیکن اس کی زبان کو زندگی مل گئی ہے اور وہ بولنے لگی ہے۔ لیکن، ابھی اس نے صرف ایک ہی لفظ بولا ہے۔ اس کی آواز کی ریکارڈنگ یوٹیوب اور سائنس کی انٹرنیٹ سائٹس پر موجود ہے۔
نشیامون کی آواز پر کام کرنے والے سائنس دانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ آواز تین ہزار سال پرانے راہب ہی کی ہے، لیکن یہ آواز اصلی نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر آج وہ زندہ ہوتا تو ہو بہو اسی طرح بولتا۔
یونیورسٹی آف لندن کے رائل ہال وے کالج میں زبان سے متعلق ایک ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ ہاورڈ کی قیادت میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے یہ جاننے کے لیے کہ نشیامون کی آواز کیسی تھی، سی ٹی سکین کا استعمال کرتے ہوئے اس کے منہ اور گلے کا تھری ڈی نقشہ بنایا، جس سے انہیں یہ معلوم ہوا کہ اس کے نرخرے کی ساخت کیسی تھی اور آواز پیدا کرنے والے اعصاب کی نوعیت کیا تھی۔
انسان کے بولنے میں آواز پیدا کرنے والے اعصاب کی ساخت، زبان کا سائز اور حجم، مسوڑھے، دانت اور ہونٹ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی ساخت اور سائز مل کر آواز کو ایک مخصوص شکل دیتے ہیں۔ ان میں فرق کی وجہ سے آوازیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر ہاورڈ کا کہنا ہے کہ یہ معلومات حاصل ہونے کے بعد ہم نے اس آواز کا الیکٹرانک گراف بنایا جو ان سب کے ملاپ سے پیدا ہو سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ممی اس وقت بول نہیں سکتی، لیکن میرا خیال ہے کہ اگر یہ نعش زندہ ہوتی اور بول سکتی تو تقریباً اسی آواز میں ہی بولتی۔
سائنٹیفک رپورٹ میں شائع ہونے والی ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ اس عمل کے ذریعے ڈاکٹر ہاورڈ کی ٹیم نے جو آواز پیدا کی وہ’ ah‘ اور’eh‘ کی صوت سے متشابہ ہے۔ ماہرین کو توقع ہے کہ آنے والے برسوں میں سائنس دان اس طریقہ کار کو ترقی دے کر قدیم انسانوں کی آواز دوبارہ سننے کے قابل ہو جائیں گے۔
آواز پیدا کرنے کا یہ عمل کافی دلچسپ تھا۔ سائنس دانوں نے تھری ڈی سٹی ٹی سکین سے حلق، آواز پیدا کرنے والے اعصاب، ہونٹوں اور زبان کی تصویر بنائی اور پھر ان چیزوں کو تھری ڈی پرنٹر پر تیار کر کے جوڑ لیا۔ اس کے بعد انہیں کمپیوٹر سے جوڑ کر آواز کی لہر پیدا کی، اور اسے ریکارڈ کر کے اسپیکر پر سنا گیا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تھری پرنٹر سے تیار کردہ آواز پیدا کرنے کے اجزا، کمپیوٹر، سافٹ ویئر اور اسپیکر کی مدد سے مصنوعی طور پر اس آواز کی ہوبہو نقل پیدا کی جا سکتی ہے جو اس کی زندگی میں تھی۔
ڈاکٹر ہاروڈ کو توقع ہے کہ ان کی ٹیم جلد ایک زیادہ ترقی یافتہ سافٹ ویئر تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، جس سے قدیم دور کے انسانوں کی آوازوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔