ممبئی دہشت گرد حملوں کو 11 سال مکمل

فائل

ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کو آج گیارہ سال ہو گئے۔ اس تعلق سے بھارت میں کئی پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا اور صدر، نائب صدر، وزیر اعظم اور مہاراشٹر کے گورنر سمیت متعدد شخصیات نے ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیا۔

26 نومبر 2008 کو ہونے والے ان حملوں میں متعدد پولیس افسران سمیت 166 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں کئی غیر ملکی بھی تھے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، مورگن آرٹیگس نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ گیارہ سال قبل ممبئی پر بزدلانہ دہشت گرد حملہ کیا گیا تھا، جس میں 6 امریکی شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ترجمان نے حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے پر زور دیا۔

ان حملوں نے بھارت اور پاکستان کے باہمی رشتوں کو بری طرح متاثر کیا۔ اُس سے قبل، دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی بحالی کے جو اقدامات کیے جا رہے تھے، ان کا سلسلہ رک گیا اور جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔

اسی دوران پٹھان کوٹ، اُڑی اور پلوامہ میں دہشت گردانہ وارداتیں ہوئیں جنھوں نے باہمی کشیدگی میں اور اضافہ کیا۔

اُس کے بعد، بھارت کی جانب سے بالاکوٹ میں کارروائی اور پاکستان کی جوابی کارروائی نے دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

مگر اب کرتارپور کاریڈور کے کھلنے سے باہمی تعلقات پر جمی کشیدگی کی برف کسی حد تک پگھلی ہے۔

نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ممبئی حملوں سے باہمی تعلقات کو شدید دھچکہ لگا تھا۔

ایک سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان ممبئی حملوں کے ذمہ داروں حافظ سعید، ذکی الرحمٰن لکھوی اور مولانا مسعود اظہر کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور مبینہ انڈر ورلڈ ڈان، داؤد ابراہیم کو بھارت کے حوالے کرنے کا قدم اٹھاتا ہے تو اس سے دونوں ملکوں کے رشتوں پر مثبت اثر پڑے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ داؤد ابراہیم کے خلاف پاکستانی عدالت میں کوئی کارروائی تو نہیں چل سکتی۔ البتہ، پاکستان انھیں بھارت کے حوالے کر سکتا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ داؤد ابراہیم پاکستان ہی میں ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ حافظ سعید اور ذکی الرحمٰن لکھوی ممبئی حملوں کے منصوبہ ساز تھے۔

ایک اور تجزیہ کار انجم نعیم کہتے ہیں کہ اب دہشت گردانہ وارداتیں بند ہونی چاہئیں۔ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ کشیدگی کے سائے سے باہر آئیں اور باہمی مفادات کی تکمیل کی کوشش کریں۔

تجزیہ کاروں نے دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات شروع کیے جانے پر بھی زور دیا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف وہاں کی عدالتوں میں کارروائی چل رہی ہے۔

اس کا بھارت سے مطالبہ ہے کہ وہ حملے کے منصوبہ سازوں کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرے۔