ملا فضل اللہ بین الاقوامی دہشت گرد قرار

فائل

منگل کو محکمہٴخارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک اخباری بیان میں کہا گیا ہے کہ مولانا فضل اللہ دہشت گردوں کو ’مدد فراہم کرتا ہے اور دہشت گرد ی میں ملوث ہے‘

امریکی محکمہٴخارجہ نے مولانا فضل اللہ کو، جنھیں ملا فضل اللہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے۔

اِس ضمن میں انتظامی حکم نامے نمبر 13224 کا حوالہ دیا گیا ہے، جِس کا تعلق باضابطہ طور پر ’مخصوص عالمی دہشت گرد‘ قرار دیے جانے سے ہے۔

منگل کو جاری ہونے والے ایک اخباری بیان میں کہا گیا ہے کہ مولانا فضل اللہ دہشت گردوں کو ’مدد فراہم کرتا ہے اور دہشت گرد ی میں ملوث ہے‘۔

بیان کے مطابق، اس اعلان سے مرتب ہونے والے مضمرات میں یہ بات شامل ہے کہ کسی امریکی فرد کی طرف سے اُن کے ساتھ کسی مالی لین دین پر ممانعت ہوگی، اور امریکہ میں اُن کی تمام املاک اور مفادات، جو امریکہ کی حدود میں یا امریکی افراد کے پاس یا کنٹرول میں ہوں، وہ تمام منجمد ہوجائیں گے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سرغنے، حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد، نومبر، 2013ء میں، مولانا فضل اللہ ٹی ٹی پی کے کمانڈر منتخب ہوئے۔

محکمہٴخارجہ نے یکم ستمبر، 2010ء میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی، ٹی ٹی پی کو 29 جولائی، 2011ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کردہ قرارداد 1267/1989 کے تحت، القاعدہ کے خلاف عائد تعزیرات کی کمیٹی کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ فضل اللہ کی قیادت میں ٹی ٹی پی نے 16 دسمبر 2014ء کو پاکستان کے شہر پشاور کے اسکول پر کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جِس کے نتیجے میں کم از کم 148 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تعداد طلبا کی تھی۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالنے سے قبل، فضل اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ستمبر 2013ء میں پاکستانی فوج کے میجر جنرل صناٴاللہ نیازی کی ہلاکت کی پشت پناہی وہی کر رہے تھے، اور ساتھ ہی، سنہ 2012 میں اسکول کی بچی اور سرگرم کارکن ملالہ یوسف زئی کی شوٹنگ کے احکامات بھی اُنہوں نے ہی دیے تھے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’فضل اللہ جون 2012ء کے حملے میں ملوث تھے جس میں 17 پاکستانی فوجیوں کے سر قلم کیے گئے تھے؛ اور طالبان کے خلاف امن کمیٹیوں کے قیادت کرنے والے زعماٴ کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے احکامات بھی اُنھوں نے ہی صادر کیے تھے‘۔