یورپ کی سیاست پر اگر نظر ڈالی جائے تو شمال میں سویڈن سے لے کرجنوب میں اٹلی تک ۔۔۔ دائیں بازو کی ایسی جماعتیں ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں جن کی سیاست میں غیر ملکی تارکینِ وطن اوربعض مذہبی اقلیتوں کے خلاف رجحانات نظر آتے ہیں۔ تاہم کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس نوعیت کے سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کی اصل وجہ یورپ کو درپیش معاشی مسائل ہیں۔
ستمبر میں جب سویڈن کے دائیں بازو کی جماعت ڈیموکریٹ نے پارلیمنٹ میں نشستیں جیتیں تو اس کے اثرات سرحدوں سے باہر تک محسوس کیے گئے۔
سویڈن جسے سوشلسٹ حکومت کا ماڈل سمجھا جاتا ہے اب سیکنڈے نیوین ممالک سے باہر کے تارکین ِ وطن کی مخالفت کر رہا ہے اوراس ملک میں مخالفانہ جذبات کی ترجمانی کرنے والے ڈیموکریٹ لیڈر انتخابات جیتے ہیں۔
جمی ایکسن کہتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار ہیں اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی ملک کے لیے اپنی ذمہ داریاں سمجھ رہی ہیں۔ کیونکہ وقت کا یہی تقاضا ہے۔
جب کہ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد مظاہرین نے نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص رکرڈ سلیٹن گرین کا کہنا تھا کہ یہ ایک ناقابل ِ برداشت صورتحال ہے کیونکہ میں ایک ایسے ملک میں بڑا ہوا ہوں، جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو قبول کرتا ہے۔ میں نے زندگی میں اس طرح کے مخالفانہ جذبات پہلی بار دیکھے ہیں۔
مگر ان جذبات کے برعکس، دائیں بازو کی وہ جماعتیں جو تارکین ِ وطن کے خلاف ہیں ،یورپ میں کامیابی حاصل کر رہی ہیں۔ ہالینڈ کی فریڈم پارٹی نے اسلام مخالفانہ جذبات کا اظہار کرکے ووٹ حاصل کیے۔اس جماعت کے سربراہ گیرٹ وائلڈرز اتحادی جماعتوں کے میں خاصے بااثر تصور کیے جاتے ہیں۔ وی او اے نے ان سے جون میں الیکشنز سے قبل گفتگو کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوں مگر میرے نظریات اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہم یورپ اورہالینڈ میں آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
فرانس اور اٹلی میں بھی دائیں بازو کی جماعتوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ فرانس جولائی میں برقعے کے خلاف قانون پاس کرنے والا پہلا ملک تھا۔ فرانسیسی سیاستدانوں کے نزدیک برقعہ فرانسیسی روایات سے متصادم تھا۔
بہت سے ماہرین کے نزدیک تارکین وطن کے خلاف متعصانہ رویے کی وجہ معاشی مسائل ہیں۔ تارکین ِ وطن پر عموما ملازمتیں حاصل کرنے اور حکومت سے سماجی مد میں پیسے لینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
جرمن تاریخ دان جولین شٹرل تارکین وطن کو اکیسویں صدی کا مسئلہ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے نزدیک یہ مسئلہ مشرق و مغرب کا نہیں بلکہ اصل بحث تارکین ِ وطن کو امیگریشن دینے کی ہے، خاص طور پر مسلمان اقلیت کو۔ یورپ اور جرمنی میں یہی مسئلہ زیر ِ بحث ہے۔
یورپ کے سیاسی ماحول سے قطعہ ِ نظر اب بھی ہر سال ہزاروں تارکین ِ وطن یورپی ممالک آکر آباد ہورہے ۔ جبکہ ان میں سے اکثر کو اس طرح سے خوش آمدید نہیں کہا جاتا، جس کی وہ توقع رکھتے ہیں۔