مختاراں مائی کی ’وائس آف امریکہ‘ کی ’ٹوئٹ بات چیت‘میں شرکت

مختاراں مائی کی ’وائس آف امریکہ‘ کی ’ٹوئٹ بات چیت‘میں شرکت

’نہ میں باغی ہوں نہ ہی برگزیدہ، میں صرف ایک خاتون ہوں جو مساوی حقوق کےحصول کےلیے کوشاں ہے‘

پاکستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن مختاراں مائی نے، جنھوں نے 2002ء میں جسمانی زیادتی کا شکارہونے پر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، بدھ کے روز ’ وائس آف امریکہ‘ کے توسط سے امتیازی نوعیت کی ’ٹوئٹ بات چیت‘ میں شرکت کرتے ہوئے اپنا تعارف ’نہ میں باغی ہوں نہ ہی برگزیدہ، میں صرف ایک خاتون ہوں جو مساوی حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔‘

مختاراں مائی نےبین الاقوامی توجہ ایسے وقت اپنی طرف مبذول کرائی جب وہ جنسی تعصب اور مقامی اقدار کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئیں، اور اپنے ساتھ مبینہ آبرو ریزی کے مرتکب مرد وں کے خلاف گواہی دی، جنھوں نے اُن کے بھائی سے مبینہ بدلہ لینے کی غرض سے مقامی قبائلی کونسل کے احکامات کے مطابق اُن پر حملہ کیا۔

پہل کرتے ہوئے،’وائس آف امریکہ‘ نے مائی کے بیان کو وِی او اے کے اردو ویب سائٹ پر پوسٹ کیا، ٹوئٹ بات چیت کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور VOANews.com کے ایشیا کے ٹوئٹر پیج پر شائع کیا۔ مائی کی آسانی کے لیے انگریزی میں کیے جانے والے سوالات کا اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ ٹوئٹر استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے گفتگو کا تبادلہ کیا اور دوبارہ ٹوئٹ کرنے کے سلسلےپر شرکا کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔

سنہ 2004 میں ٹائم میگزین کی طرف سے مائی کو دنیا کے سب سے زیادہ بااثر لوگوں میں شمار کیا گیا، تب سے وہ انسانی حقوق کی علمبردار بن گئی ہیں، اُنھوں نے حکومتِ پاکستان کی طرف سے دیے گئے انعام کی رقم کو خواتین کے بہبود کے لیے قائم مختاراں مائی تنظیم پر استعمال کیا، جو خواتین کو پناہ فراہم کر تی ہے اورجس نے بچیوں کے لیے دو اسکول کھولے ہیں۔

اُن سے معلوم کیا گیا کہ گاؤں میں تعلیم عام ہونے پر کیامعاشرے میں خواتین کےحقوق کے بارے میں سوچ میں کوئی تبدیلی محسوس ہوئی، جِس پر اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے مخالف تھے اب وہ اُن کے ساتھ مل کر اسکول کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ اِس بات پر کہ عورتوں کوبااختیار بنانے کے لیے مزید کیا اقدامات کیے جائیں، مائی کا کہنا تھا ، ’ اُن کو اہمیت دی جائے، اور اُن کا ساتھ دیا جائے‘۔


’وائس آف امریکہ‘ کے قائم مقام ڈائریکٹر، اسٹیو ریڈش نے کہا کہ بدھ کے روز کا ’ ٹوئٹ بات چیت‘ وائس آف امریکہ کی اُس صلاحیت کو نمایاں کرتا ہے جِس کی بدولت عالمی سطح پر سامعین و ناظرین کو کسی روداد سے آشنا کیا جاسکتا ہے، اور ٹوئٹر جیسے سماجی میڈیا سائٹس کے استعمال کے ذریعے حقوقِ انسانی کی ایک مؤثروکیل کے ساتھ کس طرح سےمکالمہ ہو سکتا ہے۔

مائی ابھی بھی پاکستان کے ایک دیہی علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور اُنھیں اپنے خیالات کےباعث دھمکیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ پہلے ایک مظلوم تھیں، پھر باہمت خاتون بن کر سامنے آئیں اور اب ایک سرگرم کارکن ہیں۔ خواتین کے حقوق کی مہم جو ئی کے کام کے صلے میں مائی کو متعدد بین الاقوامی انعام مل چکے ہیں۔