عالمی امدادی تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے ہفتے کو افغانستان کے شہر قندوز میں امریکی فوج کی طرف سے ایک اسپتال پر بمباری کی جنیوا کنونشن کے تحت آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنے فرانسیسی نام کی مخفف ’ایم ایس ایف‘ سے جانی جانے والی تنظیم کی صدر جوئین لیو نے بدھ کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’یہ ناقابل قبول ہے کہ اسپتال پر بمباری اور اس کے عملے اور مریضوں کی ہلاکت کو نادانستہ نقصان یا غلطی کہہ کر ایک طرف کر دیا جائے۔‘‘
ایم ایس ایف کے اس بیان سے ایک روز قبل افغانستان میں نیٹو اتحاد کے سربراہ امریکی جنرل جان کیمبل نے کانگریس میں ایک کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکی فورسز ’غلطی‘ سے اسپتال پر بمباری کی ذمہ دار ہیں۔ اس بمباری میں 10 مریض اور اسپتال کے عملے کے 12 ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
لیو نے کہا کہ اس حملے کے حقائق کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے اور یہ کہ ایم ایس ایف امریکہ، افغانستان اور نیٹو کی جانب سے وعدہ کی گئی اندرونی تحقیقات پر انحصار نہیں کر سکتی۔
ایم ایس ایف سوئٹزرلینڈ کے عہدیدار برونو جوکم نے کہا ہے کہ ’’بلا شک و شبہ‘‘ اسپتال کو نشانہ بنایا گیا اور ایک گھنٹے سے کم عرصے میں اس پر چار پانچ حملے کیے گئے جبکہ اس کے گرد کسی عمارت کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
’’ہم کسی اتفاقی گولی یا اتفاقی بم کی بات نہیں کر رہے جس سے ہمارے اسپتال کو جزوی نقصان پہنچا ہو۔ ہم اسپتال کی مرکزی عمارت کی منظم تباہی کی بات کر رہے ہیں جس میں مریضوں کو انتہائی نگہداشت اور زخمیوں کی دیکھ بھال کی سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں۔‘‘
جوکم نے کہا کہ علاقے میں اسپتال چار سال سے کام کر رہا تھا اور اس کے بارے میں ہر کسی کو معلوم تھا۔ انہوں نے اس حملے کی تحقیقات کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ کسی ملک کو ایسے کسی عمل کے بعد بغیر احتساب کے جانے دینا ’’تمام مسلح گروپوں کو پیغام دیتا ہے‘‘ کہ ایسا ممکن ہے۔
جنرل کیمبل نے قانون سازوں کو بتایا تھا کہ افغان فورسز نے ایم ایس ایف پر حملے کی درخواست کی تھی کیونکہ طالبان جنگجو اسپتال کی عمارت کے اندر سے فائرنگ کر رہے تھے اور امریکی فورسز نے اس درخواست کا جائزہ لینے کے بعد اس پر عمل کیا۔
’’واضح رہے کہ فضائی کارروائی کا فیصلہ امریکی چین آف کمانڈ میں کیا گیا تھا۔ ایک اسپتال غلطی سے نشانہ بنا۔ ہم کبھی بھی ایک محفوظ طبی عمارت کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے بمباری کو ’’ایک بڑا سانحہ قرار دیا جسے امریکہ بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔‘‘
ادھر منگل کو قندوز میں دوبارہ لڑائی شروع ہو گئی جس سے حکومت کے اس دعوے کی تردید ہوتی ہے کہ اس کی فورسز نے طالبان کو شہر سے باہر نکال دیا ہے اور شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز اور باغیوں کے درمیان شہر کے وسط میں جھڑپیں ہوئیں۔
حکام نے خبردار کیا ہے کہ خوراک اور دیگر امداد شمالی افغانستان میں واقع شہر تک نہیں پہنچ پا رہی۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ تمام عالمی امدادی ادارے قندوز سے چلے گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے باغیوں نے اچانک حملہ کر کے قندوز شہر پر قبضہ کر لیا تھا مگر افغان فورسز نے تین دن بعد ان سے قبضہ واپس چھڑا لیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے شہر سے طالبان کو نکال دیا ہے۔
باغیوں نے دو قریبی شمالی صوبوں کے متعدد اضلاع پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ افغان فورسز ان علاقوں کو واپس لینے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہیں۔