ایم کیو ایم اور حکومت میں براہِ راست مذاکرات کا امکان

فائل

ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ کچھ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس کی قیادت سے استعفوں کے معاملے پر بات کی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی جانب سے اپنے ارکانِ اسمبلی کے استعفوں کو حتمی قرار دینے اور حکومت سے مزید مذاکرات نہ کرنے کے حالیہ اعلان کے باوجود پیر کو حکومت اور ایم کیو ایم میں براہِ راست مذاکرات کا امکان ہے۔

ایم کیو ایم کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ہفتے کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے متحدہ کے قائد الطاف حسین سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ استعفے واپس نہ لینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جائیں۔

ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ کچھ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس کی قیادت سے استعفوں کے معاملے پر بات کی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے اتوار کو 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں موجودہ صورتحال میں ایم کیو ایم مذاکرات کے لیے تو تیار ہوجائے گی لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت متحدہ کے مطالبات تسلیم کرے گی؟

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں متحدہ قومی موومنٹ کے دو مطالبات ایسے ہیں جن کو حکومت مان لے گی، ایک تو کراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی کی تشکیل اور دوسرا ایم کیو ایم کے مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاک ہونے والے کارکنوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام۔

مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اور ایم کیو ایم دونوں پر پارلیمانی جماعتوں کا دباؤ ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں اور یوں لگتا ہے کہ جلد کوئی پیش رفت ہو جائے گی۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن اور حکومت کے درمیان بھی ایم کیو ایم کے استعفوں اور مذاکرات کے حوالے سے رابطے جاری ہیں۔

ٓایم کیو ایم کے ارکان نے پچھلے دنوں یہ کہہ کر سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ کی صوبائی اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے کہ کراچی آپریشن میں ان کی جماعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی شکایات کسی بھی پلیٹ فارم پر نہیں سنی جا رہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ ایم کیو ایم کو اسمبلیوں میں رہنا چاہیے اور اس کے تحفظات دور کرنے کے لئے حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمن کو سونپی تھی۔

کراچی میں ستمبر 2013ء سے رینجرز اور پولیس کا آپریشن جاری ہے اور حکومت کا دعویہے کہ آپریشن کے نتیجے میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے۔

ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ اس کے کارکنان کو آپریشن میں نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت بارہا کہہ چکی ہے کہ آپریشن صرف دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف ہے۔