پی ٹی آئی کا احتجاج: 'عمران خان اب فوری الیکشن کی تاریخ چاہتے ہیں'

فائل فوٹو

حکومت نےفوج کے سینئر ترین لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کر دیا ہے اور اس سلسلے میں ایوانِ صدر کو سمری ارسال کردی ہے۔ سیاسی مبصرین آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد ملک میں سیاسی کشمکش ختم ہونے کی امید ظاہر کر رہےلیکن؂ تادم تحریر تحریکِ انصاف 26 نومبر کو عوام سے راولپنڈی پہنچنے کی اپیل کر رہی ہے۔

عمران خان اپنے حالیہ بیانات میں آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر کہتے رہے ہیں کہ اُنہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون آرمی چیف آتا ہے۔ تاہم اُن کی جدوجہد یہی ہے کہ ملک میں فوری شفاف انتخابات ہوں۔

خیال رہے کہ عمران خان نے اپنے حالیہ خطاب میں عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچیں جس کے بعد وہ آئندہ کا پلان دیں گے۔

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے رواں ہفتے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاءالرحمٰن سے ایک غیر رسمی ملاقات میں کہا تھا کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کا مسئلہ آرمی چیف کی تعیناتی نہیں ہے وہ تو صرف صاف شفاف انتخابات چاہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جو اہلیت پر پورا اترے وہ آرمی چیف لگ جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کو شہباز شریف اور آصف زرداری کی جانب سے آرمی چیف لگائے جانے پر تحفظات ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ آئین کے تحت وزیرِاعظم ہی آرمی چیف کی تعیناتی کے اہل ہیں۔

عمران خان کی جانب سے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کی تاریخ کے اعلان پر انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ عمران خان کی صحت اور معالجین کے مشورے سے رکھی گئی ہے۔

ان کے بقول عمران خان نہیں چاہتے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان کسی قسم کا کوئی تصادم ہو، اس لیے مارچ کو اسلام آباد سے راولپنڈی منتقل کیا گیا ہے۔

البتہ بعض سیاسی مبصرین پی ٹی آئی کے اس مؤقف کی حمایت نہیں کرتے، ان کی رائے میں عمران خان کی جانب سے دباؤ میں قدرے کمی آئی ہے۔ لیکن وہ انتخابات کی تاریخ کے لیے اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔


سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے پہلی مرتبہ ایک اچھا فیصلہ کیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا کہ کوئی بھی آرمی چیف بنے انہیں کسی پر کوئی اعتراض نہیں۔ لہذٰا یہ فیصلہ عقل مندی پر مبنی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا کہ عمران خان کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی غلط تھا جس کی وجہ سے حکومت یک طرفہ طور پر اہم قانون سازی کر رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ یا نیا آرمی چیف کون ہو گا اس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں، عوام اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست کا پچھلے کچھ عرصے سے مرکز نیا آرمی چیف تھا۔ وہ اقتدار میں نہیں ہیں اِس کے باوجود وہ نہیں چاہتے تھے کہ نیا آرمی چیف پی ڈی ایم کی حکومت لگائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد ولید کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار وزیرِاعظم کا ہے لیکن اِس کے باوجود گزشتہ روز انہوں نے اپنے اتحادی آصف زرداری سے مشاورت کی۔

احمد ولید کے مطابق عمران خان کی کوشش تھی کہ دباو ڈال کر اُس افسر کو آرمی چیف لگوایا جائے جو اُن کے قریب رہا ہے۔عمران خان کا خیال تھا کہ وہ اسٹیبلشمںٹ پر دباؤ ڈالیں گے تو اُن کے مطالبے پر غور ہو گا۔

احمد ولید کہتے ہیں کہ ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ لہذٰا عمران خان کو جو مومینٹم ملا ہے، اسے اگلے برس تک برقرار رکھنا عمران خان کے لیے چیلنج ہو گا۔

ان کے بقول آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد عمران خان کی کوشش ہو گی کہ کچھ ایسا نیا کریں تاکہ اُن کی مقبولیت کا گراف برقرار رہے۔

احمد ولید کی نظر میں عمران خان کی جانب سے 26 نومبر کی تاریخ دینے کا مقصد حکومت اور اداروں پر دباؤ ڈالنا تھا۔ وہ اپنے جلسے یا دھرنے سے بتانا چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس عوام کی بڑی طاقت ہے۔

SEE ALSO: پاکستان کا اگلا آرمی چیف کون ہو سکتا ہے؟

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے احمد ولید نے کہا کہ ابھی تک عمران خان حکومت پر تو کوئی دباؤ نہیں ڈال سکے۔ حکومت اپنے کام کر رہی ہے اور حکومت نے عمران خان کو اُس طرح سے سنجیدہ نہیں لیا جس طرح سے عمران سمجھ رہے تھے کہ اُن کی باتیں مانی جائیں گی۔

اُن کے بقول اگر عمران خان حکومت کو تھکانا چاہتے ہیں تو پی ڈی ایم بھی عمران خان کو تھکانا چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ کتنے جلسے اور دھرنے کریں گے۔

چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں احتجاج کی کال اس لیے دی ہے کیوں کہ وہ بھی تصادم سے بچنا چاہتے ہیں۔

تاہم سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ چونکہ 29 نومبر کو آرمی چیف جنرل باجوہ ریٹائر ہو رہے ہیں تو جو نیا آرمی چیف آ رہا ہے اسے اپنی سیاسی طاقت دکھانی ہے۔ لہٰذا 26 نومبر کی تاریخ کا تعلق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے بھی ہو سکتا ہے۔

ان کے بقول جہاں تک پنڈی کی بات ہے تو وہاں ان کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی وہاں خیمہ بستی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ واپس نہیں جائیں گے اور لمبی مدت تک رک سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کو ایک ماہ ہونے کو ہے لیکن ابھی تک کسی بھی جگہ پر لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت نہیں دیکھی گئی۔ جس سے یوں لگتا ہے کہ عمران خان جو مختلف مواقع پر اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹے ہیں، اس کی وجہ سے لوگ ان سے مایوس ہوگئے ہیں۔

البتہ چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ اب عمران خان کی کوشش یہ ہے کہ فوری طور پر عام انتخابات کی تاریخ لی جائے اور نئے آرمی چیف کے آنے کے بعد بھی وہ اس معاملے پر دباؤ بڑھاتے رہیں گے۔