پاکستانی نوجوانوں کی بھاری اکثریت معاشی حالات کی خرابی کے باوجود ملک میں ہی رہنے کو ترجیح دیتی ہے اور بیرونِ ملک منتقل نہیں ہونا چاہتی۔
نوجوانوں نے اس رائے کا اظہار وائس آف امریکہ کے یوتھ سروے میں کیا ہے جو ملٹی نیشنل ادارے اپسوس کے ذریعے کرایا گیا ہے۔
سروے میں 18 سے 34 برس کے نوجوانوں سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ کیا وہ بیرونِ ملک منتقل ہونا چاہتے ہیں؟
ہر چار میں سے تین نوجوانوں نے کہا کہ وہ بیرونِ ملک نہیں جانا چاہتے اور پاکستان میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔
سروے میں صرف 23 فی صد نوجوانوں نے کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔
بیرونِ ملک جانے کے خواہش مندوں میں خواتین (18 فی صد) کے مقابلے میں مردوں کی شرح (26 فی صد) زیادہ ہے۔
بیرونِ ملک منتقل ہونے کی خواہش 18 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں اور بہتر آمدنی والے افراد میں زیادہ ہے۔
سروے کے مطابق 18 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں کی اکثریت (35 فی صد) اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرونِ ملک جانے کی خواہش مند ہے۔ اسی طرح بہتر آمدن والے افراد کی اکثریت معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے بیرونِ ملک منتقل ہونا چاہتی ہے۔
سروے کے مطابق شہری علاقوں سے 29 فی صد جب کہ دیہی علاقوں سے 18 فی صد نوجوان بیرونِ ملک منتقل ہونا چاہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان کے نوجوانوں میں بیرونِ ملک منتقلی کی خواہش سب سے کم ہے۔
سعودی عرب نوجوانوں کی پہلی ترجیح
عام تاثر کے برعکس بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند نوجوانوں کی اکثریت یورپ یا امریکہ نہیں بلکہ سعودی عرب جانا چاہتی ہے۔
سروے کے مطابق جب بیرونِ ملک جانے کے خواہش مندوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ کس ملک منتقل ہونا چاہتے ہیں تو 41 فی صد نوجوانوں نے سعودی عرب کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ سعودی عرب منتقل ہونے کی خواہش کا اظہار کرنے والوں میں خواتین 45 فی صد جب کہ مرد 39 فی صد ہیں۔
بیرونِ ملک رہنے کے خواہش مند نوجوانوں کی دوسری ترجیح (12 فی صد) کینیڈا ہے۔ صرف چار فی صد نوجوان امریکہ منتقل ہونا چاہتے ہیں۔
نوجوانوں نے امریکہ کی پسندیدگی کی سب سے بڑی وجہ وہاں بہتر روزگار کے مواقع ہونا قرار دیا جب کہ بڑی حد تک نوجوانوں کو امریکہ کی سیاسی روایات بھی متاثر کرتی ہیں۔
سعودی عرب پہلا انتخاب کیوں؟
سروے کے مطابق نوجوانوں میں سعودی عرب کی پسندیدگی کی بڑی وجہ مشترکہ مذہب اور روزگار کے مواقع ہیں۔ اسی طرح کینیڈا اور آسٹریلیا کے بارے میں نوجوانوں کی اکثریت کی یہ رائے ہے کہ وہاں بہتر روزگار، تعلیم اور معیارِ زندگی میسر آ سکتا ہے۔
امیگریشن اینڈ ایجوکیشن کنسلٹنٹ کمپنی 'این سی سولیسیٹر' کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نعمان چٹھہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے انتخاب کی بظاہر بڑی وجہ مذہب اور کلچر کا ایک ہونا ہے جس کی طرف پاکستانی راغب ہوتے ہیں۔
ان کے بقول مغربی ممالک پاکستانیوں کی پہلی ترجیح نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے بہت سے لوگ مغربی کلچر سے گھبراتے ہیں۔ ان کے بقول ایسے لوگوں کے لیے بھی جو کبھی ملک سے باہر نہ گئے ہوں، سعودی عرب جانا ایک بڑی کامیابی ہوتی ہے۔
پاکستان اوورسیز امپلائمنٹ پروموٹر ایسوسی ایشن کے سابق ترجمان عدنان پراچہ کہتے ہیں کہ 22 سے 35 سال تک کے پاکستانی نوجوان خلیجی ممالک جانے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کے بقول خیبر پختونخوا اور پنجاب کے چھوٹے شہروں سے کام کے سلسلے میں بیرونِ ملک جانے والوں کی شرح باقی ملک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
نوجوانوں کی اکثریت کی سعودی عرب جانے کی خواہش پر ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک بڑی وجہ مذہب مشترک ہونا ہے جب کہ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یورپ کے مقابلے میں خلیجی ممالک جانا زیادہ آسان ہے۔
عدنان پراچہ کے بقول لوئر اور مڈل کلاس سے زیادہ نوجوان خلیجی ممالک جانا چاہتے ہیں جب کہ اپر کلاس کے نوجوان یورپی ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہر سال پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملازمت کے لیے سعودی عرب منتقل ہوتی ہے۔
حکومتِ پاکستان کے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 2023 میں آٹھ لاکھ 60 ہزار پاکستانی بیرونِ ملک ملازمت کی غرض سے گئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ چار لاکھ 26 ہزار 951 سعودی عرب گئے۔
بیرونِ ملک منتقل ہونے والوں کی یہ تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔