’’دی آئل اینڈ گیس جرنل‘‘ عام طور سے ایسا میگزین نہیں ہے جس میں نیویارک شہر میں مسجد کی تعمیر کی تجویز پر بحث کی توقع کی جاتی ہو۔ عموماً اس میگزین میں توانائی کے مسائل جیسے خلیج میکسیکو میں بی پی کے تیل کے کنوئیں سے آلودگی پھیلنےکے معاملات زیرِ بحث آتے ہیں۔ لیکن تازہ ترین شمارے میں، ایڈیٹر باب ٹِپی نےلکھا ہے کہ توانائی کی صنعت سے متعلق لوگوں کو اس تلخ اور تعصب پر مبنی بحث کے بارے میں تشویش ہونی چاہیئے ۔ ایک اداریے میں جس کا عنوان ہے، The Mosque and Oil،
ٹِپی کہتے ہیں کہ اس ناگوار بحث سے تیل اور گیس کی صنعت کے اہم مفادات وابستہ ہیں۔ وہ ان سیاست دانوں کی مذمت کرتے ہیں جو غیر ملکیوں کے بارے میں تنگ نظری اور نفرت بھرے جذبات پھیلاتے ہیں اور جو توانائی میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے مسلسل مہنگے اور غیر دانشمندانہ منصوبوں کی حمایت کرتے رہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں ٹِپی نے ان سیاستدانوں پر تنقید کی ہے جو تیل بر آمد کرنے والے تمام ملکوں کو امریکہ کا دشمن کہتےہیں۔’’تیل بر آمد کرنے والے ملکوں میں کچھ حکومتیں ہماری مخالف ہیں اور ان میں سے دو ملک وینیزویلا اور ایران ہیں۔ لیکن دوسرے بر آمد کنندگان ہمارے بہت اچھے تجارتی پارٹنر ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے اختلافات ویسے ہی ہیں جیسے دوسرے تمام تجارتی پارٹنرز کے ساتھ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی جدید مارکیٹ میں، تیل بر آمد کرنے والے ملکوں اور تیل در آمد کرنے والے ملکوں دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔‘‘
اس مسئلے کی ایک وجہ 1973 میں تیل کی بر آمد پر پابندی میں سعودی عرب کا رول اور گیارہ ستمبر کے حملوںمیں بعض سعودی شہریوں کا ملوث ہونا ہے ۔ باب ٹِپی کہتے ہیں کہ بہت سے امریکی جو تیل کی در آمد پر امریکہ کا انحصار کم کرنا چاہتے ہیں، اسی قسم کے دلائل نیو یارک کی مسجد کی تعمیر کی مخالفت میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ تمام عربوں اور مسلمانوں کے بارے میں مخالفانہ جذبات کا اظہار کرتےہیں۔
ٹِپی کہتے ہیں’’میرے خیال میں جب بہت سے لوگ اس قسم کی دلیل دیتے ہیں تو ان کے ذہن میں وہ 19 حملہ آور ہوتےہیں جن میں سے 15 کاتعلق سعودی عرب سے تھا۔ سعودی عرب تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب ہمارے خلاف ہے ۔ یہ بات صحیح نہیں ہے لیکن بہت سے لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اسی بات پر یقین کرتے رہیں۔‘‘
ٹِپی کے اداریے پر توانائی کے شعبے کے لوگوں نے کوئی خاص تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن جن لوگوں نے یہ اداریہ پڑھا ہے، وہ اس خیال سے متفق ہیں کہ مسجد اور تیل کی در آمدات کے معاملے میں، مسلمانوں کے خلاف تعصب کی مزاحمت کی جانی چاہیئے ۔
رائس یونیورسٹی کی ایمی میئرز جیفی کہتی ہیں کہ ٹِپی نے سعودی عرب جیسے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کا جو دفاع کیا ہے وہ اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکیوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ سعودی عرب نے اکثر امریکہ کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے جس سے ساری دنیا کو فائدہ پہنچا ہے ۔’’
گیارہ ستمبر کے بعد، مارکیٹ میں افرا تفری کو روکنے کے لیے اور اس لیے بھی کہ وہ گذشتہ 30 برس سے ہمارا اتحادی رہا ہے، سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافہ کر دیا تا کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کی وجہ سے تیل کی منڈی میں عدم استحکام پیدا نہ ہو۔ انھوں نے اسکی تشہیر نہیں کی، لیکن یہ اقدام ضرور کیا۔‘‘
اگرچہ جیفی اس بارے میں کوئی رائے دینے سے پرہیز کرتی ہیں کہ نیو یارک میں مسجد بنائی جانی چاہیئے یا نہیں لیکن وہ ٹِپی کے اس خیال سے متفق ہیں کہ چند دہشت گردوں نے جو کچھ کیا، اس کے لیے امریکیوں کو عربوں یا مسلمانوں کو الزام نہیں دینا چاہیئے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے مسلمان دشمنی کے بعض قابلِ نفرت واقعات کا خود مشاہدہ کیا ہے ۔
ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد کے ہفتوں میں، انہیں مشرقِ وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ایک ملک کے وزیرِ تیل کو ہیوسٹن ایئر پورٹ سے ، رائس یونیورسٹی لے جانے کے لیے خصوصی انتظامات کرنے پڑے تھے تا کہ ناراض لوگوں کے ایک ہجوم کے ساتھ تصادم سے بچا جا سکے ۔ تیل کے وزیر توانائی کے بارے میں کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ آئے تھے ۔ وہ کہتی ہیں کہ مسجد کی تعمیر کے بارے میں بحث جاری رہے گی کیوں کہ لوگ غصے میں ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کرنا ان کا حق ہے ۔ لیکن جو چیز متنازع نہیں ہے وہ امریکی حکومت کا سرکاری موقف ہے کہ مسجد کے حامیوں کو اس کی تعمیر کا حق حاصل ہے ۔