اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں یونیسف اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سمیت دیگر اداروں کے تخمینوں کے مطابق زچگی کے دوران ہلاک ہو جانے والی ماؤں اور بچوں کی اموات میں کمی آئی ہے۔
عالمی اداروں کے مطابق جس تعداد میں ماؤں اور بچوں کو اب موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاتا ہے اتنی بڑی تعداد میں اموات سے بچانا پہلے کبھی ممکن نہیں تھا۔
بچوں کی اموات 2000 کے بعد سے نصف جبکہ زچگی سے ہونے والے خواتین کی اموات میں ایک تہائی سے زائد کمی ہوئی ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ سب اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ صحت کا معیار پہلے سے بلند ہوا ہے۔ علاج اور دوائیں سستی جبکہ لوگوں تک ان کی رسائی آسان بنا دی گئی ہے۔
نئے تخمیوں کے مطابق 2018 میں 15 سال سے کم عمر کے 62 لاکھ بچے ہلاک ہوئے جبکہ 2017 میں حمل اور ولادت کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے دو لاکھ 90ہزار سے زیادہ خواتین کی موت ہوئی۔
بچوں کی کل اموات میں سے 53 لاکھ بچے ایسے تھے جو پانچ سال کی عمر تک بھی نہیں پہنچ پائے۔ ان میں بھی زیادہ تر بچے ایک سال کے دوران ہی موت کے منہ میں چلے گئے۔
عورتوں اور نوزائیدہ بچوں میں ولادت کے دوران یا پیدائش کے فوری بعد اموات کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ نئے تخمینوں کے مطابق ہر سال 68 لاکھ سے زائد حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچے ہلاک ہوتے ہیں۔
اگر پیدائش کے دوران پیچیدگیاں ہوجائیں یا پھر بچوں میں پیدائشی نقائص ہوں، معدے میں انفیکشن ہو جائے تو پھر بچوں کے پیدائش کے پہلے مہینے ہی مرنے کا زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔
پوری دنیا میں بچوں کی پیدائش کو زندگی کی بڑی خوشیوں میں سے ایک خوشی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں ہر 11 سیکنڈز میں ایک بچے کی موت متاثرہ خاندان کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں ہے۔
یونیسیف کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ہین ریٹافور کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی مدد کے لیے تربیت یافتہ عملہ، صاف پانی، مناسب غذا، بنیادی ادویات اور ویکسین اموات کی کمی کا سبب ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے ہمیں ان تمام بنیادی چیزوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔