شام میں ایک ہزار ایرانی فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف

فائل

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق ایران کی فوجی موجودگی میں اضافے کی وجہ سے شام میں ایرانی فوجیوں کی ہلاکتوں میں حالیہ چند ماہ کے دوران دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے اعتراف کیا ہے کہ شام میں اب تک ایران کے ایک ہزار سے زائد فوجی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔

ایران، شام کے صدر بشار الاسد کا سب سے بڑا حمایتی ہے جو پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کی ابتدا سے ہی اسد حکومت کو مالی، افرادی اور عسکری مدد فراہم کرتا آرہا ہے۔

اسد حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کے آغاز کے فوراً بعد ہی ایران نے پہلے اپنے فوجی مشیر اور پھر فوجی دستے اسد حکومت کی مدد کے لیے شام روانہ کردیے تھے جن کی تعداد میں حالیہ چند مہینوں کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق ایران کی فوجی موجودگی میں اس اضافے کی وجہ سے شام میں ایرانی فوجیوں کی ہلاکتوں میں حالیہ چند ماہ کے دوران دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ خانہ جنگی کے آغاز سے رواں سال جولائی تک شام میں 400 کے لگ بھگ ایرانی فوجی اہلکار ہوئے تھے جن کی تعداد گزشتہ ہفتے ایک ہزار تک جا پہنچی ہے۔

ایران کی شہدا فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد علی شہیدی محلاتی نے منگل کو ایران کے ایک خبر رساں ادارے 'تسنیم' سے گفتگو کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ شام میں "مزارات کے محافظ" ایرانی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔

ایرانی حکومت کا موقف ہے کہ اس کے فوجی دستے شام میں موجود شیعہ مسلمانوں کے مقدس مقامات اور زیارات کے تحفظ کے لیے داعش اور اسد حکومت کے مخالف دیگر سنی باغیوں سے لڑ رہے ہیں۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حکومت نے شام میں صرف اپنے فوجی دستے ہی نہیں بھیجے بلکہ شامی فوج کی مدد کے لیے افغانستان اور پاکستان سے بھی سیکڑوں شیعہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور فوجی تربیت دینے کے بعد شام روانہ کیا ہے۔

دریں اثنا شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کے مشرقی علاقے پر شامی اور روسی افواج کی بمباری کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا۔ فضائی بمباری کی آڑ میں شامی اور روسی فوج کے زمینی دستوں اور ان کی اتحادی لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے جنگجووں نے گزشتہ روز مشرقی حلب کے ایک اہم علاقے کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی جس پر گزشتہ چار برسوں سے باغیوں کا کنٹرول ہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر سمانتھا پاور نے کہا ہے کہ علاقے میں موجود رضاکاروں نے تصدیق کی ہے کہ مشرقی حلب میں گزشتہ سات روز کے دوران شامی اور روسی فوج کی بمباری اور فضائی حملوں میں 289 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک رضاکار کے مطابق مشرقی حلب پر صرف ہفتے کے روز 180 فضائی حملے کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی تمام تر اپیلوں اور کوششوں کے باوجود شام اور روس مشرقی حلب میں پھنسے بھوکے پیاسے لوگوں پر بمباری کرکے انہیں ہار ماننے پر مجبور کرنے کی اپنی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ فریقین کو مشرقی حلب میں لڑائی روکنے پر آمادہ کرنے کے لیے کثیر الملکی مذاکرات جنیوا میں جاری ہیں تاکہ علاقے میں امداد پہنچانے کی راہ ہموار کی جاسکے۔

حلب کا مشرقی علاقہ شام میں خانہ جنگی کی ابتدا سے ہی اسد حکومت کے مخالف باغیوں کے قبضے میں ہے اور حلب شہر کو حزبِ اختلاف کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم شامی حکومت شہر پر مکمل قبضے کے لیے گزشتہ کئی ہفتوں سے مشرقی حلب پر جارحانہ فضائی حملے کر رہی ہے جس میں اسے روسی فضائیہ اور زمینی دستوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔

مغربی ممالک اور اقوامِ متحدہ مشرقی حلب کی صورتِ حال کو انسانی المیہ قرار دے رہے ہیں اور انہوں نے خبردار کیا ہے کہ وہاں کی جانے والی کارروائیوں پر شامی اور روسی حکومتوں کو مستقبل میں جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔