مومن خان مومن ۔۔۔ ایک منفرد غزل گو شاعر

مومن، ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار امراء میں ہوتا تھا ۔ وہ زندہ دل اور باذوق آدمی تھے۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

یہ مومن کا وہ شعر ہے، مرزا غالب جس کے بدلے مرزا اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے۔

مومن کو اردو کا خالص غزل گو شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی غزلیات میں عاشق و معشوق کے دلوں کی واردات، حسن و عشق اور نفسیاتِ محبت کی باتیں ملتی ہیں۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مومن کی غزل کا بنیادی موضوع حسن اور عشق ہے ۔ وہ صرف غزل گو تھے اور اس میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

۔۔۔

ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

مومن کی غزل میں اعتدال اور حسن برقرار رہتا ہے اور لطیف احساسات کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ان کے وہ اشعار جن میں بظاہر ابہام پایا جاتا ہے اپنے اندر معنی خیزی کے ساتھ ساتھ پیچیدگئِ حسن بھی رکھتے ہیں:

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن

رات کاٹی خدا خدا کرکے

۔۔۔۔

اس نقش پا کے سجدے نےکیا کیا کیا ذلیل

میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

۔۔۔

کچھ نہیں نظر آتا آنکھ لگتے ہی ناصح

گر نہیں یقیں حضرت، آپ بھی لگا دیکھیں

مومن کی زبان میں سادگی اور بیان میں حسن موجود ہے ان کے زبان و بیان میں دلکشی ہے اور وہ اپنی انہی صلاحیتیوں کی بنا پر سادہ سے سادہ الفاظ میں بھی ایک دنیا آباد کر جاتے ہیں۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے

ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

۔۔۔

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم

منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

مومن نے اپنے تخلص کا بہت پہلودار استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تخلص سے جتنے معنی اور مضامیں اپنی شاعری میں پیدا کیے ہیں ، شاید ہی کسی نے کیے ہوں:

ہرگز نہ رام وہ صنم سنگدل ہوا

مومن ہزار حیف کہ ایماں عبث گیا

۔۔۔

پیہم سجود پائے صنم پر دم و داع

مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں

مومن نے چھ مثنویاں بھی لکھی ہیں۔ ممتاز محقق، ڈاکٹر سلیم اختر ایک جگہ لکھتے ہیں

’’مومن نے ہر عشق پر ایک مثنوی بھی لکھی اور کیا پتہ ایسے عشق بھی ہوں، جن پر مثنویاں لکھنے کی نوبت ہی نہ آئی ہو ۔ ‘

ڈاکٹر سلیم اختر ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

’’ بہت کم شاعروں کے مزاج میں مومن جیسی رنکا رنگی ملے گی۔طب، نجوم، رمل، موسیقی، شطرنج اور عملیات وغیرہ سے خصوصی شغف تو تھا ہی لیکن شاعری اور اس کے ساتھ ساتھ مجاز عشق میں بھی خصوصی مہارت پیدا کی۔‘‘

جس دور میں مومن نے نشوونما پائی وہ مغلیہ دور کے زوال کا زمانہ تھا۔ جاگیردار طبقہ عیش و عشرت میں مست تھا مومن بھی اس رنگ میں رنگے ہوئے تھے لیکن بڑھاپے میں گویا تائب ہو گئے۔وہ خود کہتے ہیں:

عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن

آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

مومن کا پورا نام مومن خان اور مومن تخلص تھا۔ آپ کے والد حکیم غلام نبی تھے اور دادا حکیم نامداد، شاہ عالم کے طبیب تھے اور شاہ عالم کے دور میں انہیں چند گاوں جاگیر کے طور پر ملے تھے۔ مومن چونکہ کشمیری تھے اس لیے کشمیر کا حسن بھی مومن کو عطا ہوا تھا۔ شاعری کا بچپن سےہی شوق تھا،شروع شروع میں اپنا کلام شاہ نصیر کو دکھایا کرتے تھے لیکن جلد ہی مہارت حاصل کر لی اور صاحب طرز شاعر بن گئے۔ مومن، ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے اور ان کا شمار امراء میں ہوتا تھا ۔ وہ زندہ دل اور باذوق آدمی تھے۔

مومن نجومی بھی تھے۔ انہوں نے اپنے یوم وفات کی پیش گوئی بھی کی اور دست و بازو ٹوٹنے کا ذکر بھی کیا۔ وہ 1851ء میں چھت سے گر پڑے اور کچھ عرصے بعد راہی اجل ہوئے۔

پروانے کو کس لیے جلایا تھا اے شمع

بے جرم کو خاک میں ملایا اے شمع