بھارت کی ہندو احیاپسند جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کو ہندو مذہب میں ذات پات سے متعلق دیے گئے ایک بیان پر برہمنوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ ان کے بیان کی مخالفت متعدد سادھو سنت بھی کر رہے ہیں۔
بھاگوت نے اتوار کو ممبئی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہندو مذہب میں ذات برادری کے نظام کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھگوان کے نزدیک سب برابر ہیں۔ ذات برادری اور فرقوں کا نظام پنڈتوں نے بنایا ہے جو کہ غلط ہے۔ ان کے بقول پنڈتوں کا یہ کہنا کہ مذہبی کتابوں میں ایسا ہے، جھوٹ ہے۔
ان کے اس بیان پر شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ بالخصوص ہندو برہمن یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھاگوت نے جو کچھ کہا ہے یا تو اس کا حوالہ دیں یا پھر اپنا بیان واپس لے کر معافی مانگیں۔
بھارت میں بعض مقامات پر ان کے خلاف مظاہرے بھی ہو ئے ہیں۔ ریاست بہار کے علاقے مظفر پور میں ان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ بھی قائم کیا گیا ہے۔
سینئر قانون داں سدھیر کمار اوجھا نے اس معاملے میں عدالت سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موہن بھاگوت کے بیان سے برہمنوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ عدالت 20 فروری کو اس معاملے پر سماعت کرے گی۔
ادھر مدھیہ پردیش کے اجین میں پیر کو سرکردہ برہمن رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں کہا گیا کہ ایک طرف آر ایس ایس ہندو قومیت کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف اس کے سربراہ ایسا بیان دیتے ہیں جس سے برہمنوں میں ناراضگی پیدا ہوتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مقررین نے کہا کہ برہمنوں کے بغیر ہندو قومیت کا تصور نامکمل ہے۔ برہمنوں کی اہانت کرکے کوئی جماعت ہندو اسٹیٹ کا تصور کیسے کر سکتی ہے۔
SEE ALSO: مسلمانوں سے متعلق آر ایس ایس سربراہ کے بیان پر بھارت میں تنازعشدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)نے بھی ان کے بیان کی مخالفت کی ہے۔ تنظیم کے قومی ترجمان ونود بنسل نے نئی دہلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ذات برادری کا نظام بہت قدیم ہے۔ پیشے کی بنیاد پر برادریاں بنی ہیں۔ یہ ہندو مذہب کی کتابوں کی بنیاد پر نہیں بنی ہیں۔
جب کہ ہندو مہا سبھا کے قومی صدر سوامی چکرپانی مہاراج نے ان کے بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے موہن بھاگوت کی مذمت کی۔
سوامی چکرپانی مہاراج نے کہا کہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا میں شری کرشن نے کہا ہے کہ اپنے کام یا پیشے کی بنیاد پر ذات برادری کا نظام بنا ہے۔
واضح رہے کہ ہندو مذہب کی کتابوں کے مطابق برہمن کا کام تعلیم حاصل کرنا، شتری برادری کا کام سرحد کی حفاظت کرنا، ویشیہ برادری کا کام تجارت کرنا اور شودر کا کام خدمت کرنا ہے۔ بھارت میں شودر نچلی ذات یا دلتوں کو کہا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سوامی چکرپانی کا کہنا تھا کہ موہن بھاگوت کا یہ بیان سماج کو توڑنے والا ہے۔ اس سے ان کا قد بہت چھوٹا ہو گیا ہے۔ ان سے ایسے بیان کی توقع نہیں تھی۔ ان کو اپنا بیان واپس لے لینا چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر معاملے میں برہمنوں کو ذمہ دار قرار دینا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اگر کوئی سیاست دان ایسی بات کرے تو وہ کر سکتا ہے لیکن موہن بھاگوت کو ان باتوں سے بچنا چاہیے اور برہمنوں کے خلاف ایسا بیان نہیں دینا چاہیے۔
SEE ALSO: آر ایس ایس رہنما کی نظام الدین اولیا درگاہ پر حاضری، کیا ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلاف کم ہوگا؟انہوں نے بیان واپس لینے کے بجائے آر ایس ایس کی جانب سے اس کی وضاحت کیے جانے کو افسوسناک قرار دیا۔
ایک معروف مذہبی قائد سوامی اوی مکتیشورانند نے رائے پور، چھتیس گڑھ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھاگوت کے بیان پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ کیا انہوں نے کہیں پڑھا ہے یا یوں ہی برہمنوں کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ یا تو اپنے بیان کا حوالہ دیں یا پھر معافی مانگیں۔
’بیان کا غلط مطلب نکالا گیا‘
موہن بھاگوت کے بیان پر تنازع کے بعد آر ایس ایس کی جانب سے وضاحت پیش کی گئی ہے۔
آر ایس ایس رہنما سنیل امبیکر نے ایک بیان میں کہا کہ موہن بھاگوت کا پنڈت کہنے کا مطلب عالم اور دانشور تھا نہ کہ برہمن۔
ان کے مطابق بھاگوت کے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ وضاحت کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ آر ایس ایس کو محسوس ہو رہا ہے کہ بھاگوت کے بیان سے ایک غیر ضروری تنازع کھڑا ہوا ہے اور وہ اس معاملے کو ہلکا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: بھارت: آر ایس ایس کے سربراہ کا مسلم مخالف بیانات سےاظہارِ لاتعلقیمبصرین کے مطابق آر ایس ایس کو برہمنوں کی تنظیم سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی 100 سال کی تاریخ میں اس کے بیشتر سربراہ برہمن ہی رہے ہیں۔ اس کے باوجود آر ایس ایس رہنما ذات پات کے خلاف بولتے رہے ہیں تاکہ ہندوؤں کے تمام طبقات کو متحد کرکے ان کو ایک قومی حیثیت دی جا سکے۔
دلت حقوق کے لیے کام کرنے والے بعض سماجی کارکن کہتے ہیں کہ بھاگوت کا یہ بیان ہندوؤں کی ایک مذہبی کتاب رام چرت مانس کے سلسلے میں پیدا ہونے والے ایک تنازعے کو بظاہر ختم کرنے کی کوشش تھی لیکن اس سے ایک اور تنازع پیدا ہو گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں دلتوں اور پسماندہ ہندوؤں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ رام چرت مانس میں دلتوں پر تشدد کی بات کہی گئی اور ان کی اہانت کی گئی ہے۔
سماج وادی پارٹی کے دلت رہنما سوامی پرساد موریہ نے گزشتہ دنوں رام چرت مانس کے خلاف بیان دیا اور اس کے اوراق پھاڑے تھے جس پر ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ۔
قبل ازیں 22 اکتوبر کو ناگپور میں ایک کتاب کے اجرا کے موقع پر بولتے ہوئے بھاگوت نے کہا تھا کہ ذات برادری کا مکمل طور پر خاتمہ ہونا چاہیے۔ اب اس نظام کا کوئی جواز نہیں ہے۔
SEE ALSO: 'ہندو مسلم اتحاد' سے متعلق آر ایس ایس سربراہ کے بیان پر بھارت میں نئی بحثوہ اس سے قبل متعدد بار ذات برادری کے نظام کی مخالفت کر چکے ہیں۔ وہ ذات برادری کی بنیاد پر تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں نشستیں مخصوص کرنے کے بھی خلاف ہیں۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) موہن بھاگوت کے بیان سے اٹھنے والے تنازعے کو ختم کرنے کے لیے میدان میں آگئی ہے۔
بی جے پی کے اترپردیش (یوپی) کے جنرل سیکریٹری اور رکن پارلیمان سبرت پاٹھک نے لکھنؤ میں کہا کہ بھاگوت نے لفظ پنڈت کا استعمال مختلف تناظر میں کیا ہے۔
انہوں نے حزبِ اختلاف پر الزام عائد کیا کہ اس نے بیان کو مسخ کرکے پیش کیا ہے۔
اس سے قبل موہن بھاگوت مسلمانوں کے بارے میں بیانات دیتے رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ بھارت میں رہنے والا ہر شہری ہندو ہے۔ ان کے اس بیان کی مسلمانوں کی جانب سے مخالفت کی گئی تھی۔