بھارت کی معاشی ترقی میں سست روی، مودی کو نئے اقدامات کی تلاش

جمعرات، یکم فروری، 2024 کو حیدرآباد، بھارت کے ایک تھوک کے بازار میں سائیکل رکشہ ڈرائیور بوجھ لیے جا رہا ہے۔

  • ایشیا کی تیسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت نے اعلان کیا کہ مارچ میں ختم ہونے والے مالی سال میں شرح نمو 6.4 فیصد رہی۔
  • یہ شرح نمو گزشتہ چار سالوں کی کم ترین ہے جس کی وجوہات میں سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار دونوں میں کمزور کارکردگی شامل ہے۔
  • سرمایہ کار ملک کی حالیہ کارکردگی کا پھر سے جائزہ لے رہے ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے بڑے عزائم والے اقتصادی اہداف کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
  • سوال یہ ہے کہ کیا بھارت 6.5 فیصد اور 7.5 کے درمیان کی شرح کو برقرار رکھ پائے گا یا یہ سست ہو کر پانچ یا چھ فیصد کی سطح پر آ جائے گی؟

گزشتہ سال کی بہترین اقتصادی کارکردگی کے بعد بھارت کے پالیسی ساز اس سال سست شرح نمو کو روکنے کی کوشش کر رہے جبکہ عالمی حالات کے اتار چڑھاؤ اور اندرونِ ملک اعتمادکی صورتِ حال نے اسٹاک مارکیٹ میں حالیہ تیزی کو کم کر دیا ہے۔

منگل کو ایشیا کی تیسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت نے اعلان کیا کہ مارچ میں ختم ہونے والے مالی سال میں شرح نمو 6.4 فیصد رہی۔

حکومت کے ابتدائی اندازوں کے مطابق ترقی کی یہ شرح نمو گزشتہ چار سالوں کی کم ترین ہے جس کی وجوہات میں سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار دونوں میں کمزور کارکردگی شامل ہے۔

یہ اقتصادی تنزلی گزشتہ سال کے دوسرے حصے میں مایوس کن اقتصادی اعشاریوں اور کارپوریٹ آمدنی میں سست روی کے بعد آئی ہے۔

SEE ALSO: امریکی ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قدر کیوں گر رہی ہے؟

نتیجتاً سرمایہ کار، ملک کی حالیہ کارکردگی کا پھر سے جائزہ لے رہے ہیں اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بڑے عزائم والے اقتصادی اہداف کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

اس صورت حال میں ان مطالبوں میں اضافہ ہو رہا ہے کہ اقتصادی ترقی کی صورتِ حال کو بہتر کرنے کے لیے مالی ضوابط اور پابندیوں میں نرمی لائی جا ئے۔

مالیاتی سہولتوں کے ادارے "ایم کے گلوبل فنانشل سروسز" کی چیف اقتصادی ماہر مدھوی آرورا کہتی ہیں کہ ان حالات میں معیشت پر اعتماد میں اضافہ کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ صارفین زیادہ اشیا خریدیں اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ ایسا بھارت اپنا معاشی توازن بڑھا کر اور ٹیکس کی شرح کم کر کے کر سکتا ہے۔

SEE ALSO: جب کچھ شراکت داروں کے ساتھ ڈالر میں تجارت کرنا مشکل ہو گیا تو بھارت کو متبادل راستہ تلاش کرنا پڑا، بھارتی وزیر خارجہ

بھارتی پالیسی سازوں نے حال ہی میں کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ کاروباری مالکان مارکیٹ میں طلب میں کمی کے رجحان پر پریشان ہیں۔

بھارت کی وزیر خزانہ نرملا ستھارامن نے پچھلے سال دسمبر میں صنعتی شعبے کے رہنماوں اور ماہر اقتصادیات کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔

بھارت کے سالانہ بجٹ کے اعلان سے قبل ایسی ملاقاتوں کو روائتی سمجھا جاتا ہے۔

بھارت کا بجٹ یکم فروری کو پیش کیا جا ئے گا۔

ان ملاقاتوں میں تجویز دی گئی کہ اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کے لیے صارفین کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ دیا جائے، ٹیکسوں اور ٹیرفس میں کمی کی جائے۔


بڑھتے ہوئے خدشات

اقتصادی صورت حال میں اعتماد میں کمی کے درپیش شرح نمو کو تیز کرنے کا خیال سیاسی سطح پر بڑھ رہا ہے۔

پچھلے ماہ بھارت کی ماہانہ اقتصادی رپورٹ میں باور کروایا گیا کہ مرکزی بینک کی سخت مالی پالیسیاں جزوی طور پر طلب میں کمی کا باعث رہیں۔

وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں اہم تبدیلیاں کی ہیں جن کا مقصد اقتصادی ترقی کی شرح کو قیمتوں میں استحکام پر ترجیح دینا ہے۔

دسمبر میں انہوں نے ایک حیران کن اقدام اٹھاتے ہوئے شکتی کانتا داس کی جگہ سنجے ملہوترا کو سنٹرل بینک کا نیا گورنر مقرر کیا۔

SEE ALSO: ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد بھارتی وزیرِ خارجہ کا دورۂ امریکہ کتنا اہم ہے؟

داس ایک قابل بھروسہ بیوروکریٹ تھے اور توقع کی جارہی تھی کہ اپنی چھ سالہ معیاد مکمل کرنے کے بعد ابھی وہ ایک دو سال مزید اس پوزیشن پر قائم رہیں گے۔

اس سے پہلے ستمبر میں جاری ہونے والے اعداد و شمار نے بتایا کہ شرح نمو 5.4 فیصد کے ہدف سے سست رہی۔

"سنٹر فار سوشل اینڈ اکنامک پروگریس" سے وابستہ سینئر فیلو سنجے کتھوریا کہتے ہیں کہ اگرچہ بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہتر رہے گی، سوال یہ ہے کہ کیا بھارت 6.5 فیصد اور 7.5 فیصد کے درمیان کی شرح کو برقرار رکھ پائے گا یا یہ سست ہو کر پانچ یا چھ فیصد کی سطح پر آ جائے گی؟

(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)