بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے تنازع کا باعث بننے والے تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ ان قوانین کے خلاف بھارت کے کسان ایک سال سے زائد عرصے سے سراپا احتجاج تھے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جمعے کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم مودی نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ زرعی قوانین کو پارلیمنٹ کے ذریعے واپس لے لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے رواں ماہ کے اختتام پر ہونے والے اجلاس کے دوران وہ زرعی قوانین کی واپسی کے لیے تمام آئینی تقاضے پورے کریں گے۔
وزیرِ اعظم مودی نے یہ اعلان ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش اور پنجاب میں تین ماہ بعد انتخابات ہونے والے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو زرعی قوانین کی منظوری کے خلاف شمالی ریاستوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا تھا اور ان ریاستوں میں عنقریب ہونے والے انتخابات اور 2024 کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی مخالفت کا خاتمہ چاہتی ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے قوم سے خطاب میں کہا کہ زرعی قوانین چھوٹے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تھے لیکن چند کسانوں نے اس کی مخالفت کی اور حکومت انہیں اس پر قائل کرنے میں ناکام رہی
واضح رہے کہ کسان زرعی قوانین کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں، جس کے خلاف پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور راجستھان سے ہزاروں کسان دہلی کے داخلی راستوں پر نومبر 2020 سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ 'کالے قوانین' واپس لیے جائیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق احتجاج کرنے والے کسانوں کے مرکزی رہنما راکیش ٹکیٹ نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک 29 نومبر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں زرعی قوانین کو واپس نہیں لیا جاتا۔
آل انڈیا کسان سبھا کے سکریٹری جنرل اتل کمار انجان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تاہم یہ بھی کہا کہ کسانوں کی تحریک ابھی جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ قوانین پارلیمنٹ سے منظور ہوئے ہیں اور پارلیمنٹ ہی انہیں واپس لے سکتی ہے۔ اس لیے 29 نومبر کو جب پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوگا تو ہم دیکھیں گے کہ یہ قوانین واپس ہوتے ہیں یا نہیں۔
ان کے بقول "وزیرِ اعظم نے کسانوں کی فصل کی کم سے کم قیمت یعنی ایم ایس پی کے بارے میں کچھ نہیں کہا، ہم اس سلسلے میں اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔"
SEE ALSO: متنازع زرعی قوانین کی منظوری کا ایک برس مکمل، بھارتی کسانوں کا ملک گیر احتجاجانہوں نے بتایا کہ کسان تنظیموں کا اجلاس بہت جلد ہونے والا ہے جس میں پوری صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ کی حکمتِ عملی پر غور کیا جائے گا۔
انہوں نے حکومت کا اعلان کسانوں اور ملک کے عوام کی جیت ہے۔ کسانوں اور محنت کش طبقے نے ایک سال کے دوران جو قربانی دی ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔
اتل کمار کے بقول، "تقریباً 700 کسان اس تحریک کے دوران ہلاک ہوئے لیکن حکومت نے انتہائی بے دردی کا مظاہرہ کیا اور کسانوں کی موت پر ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔"
ان کے مطابق توقع ہے کہ ہفتے یا اتوار کے روز سنگھو بارڈر پر تحریک چلانے والے کسانوں کے مشترکہ محاذ 'سمیوکت کسان مورچہ' کا اجلاس ہوگا اور اس میں فیصلہ کیا جائے گا۔
ایک سینئر تجزیہ کار آلوک موہن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مودی حکومت کو یہ امید نہیں رہی ہوگی کہ کسان اتنے زیادہ دنوں تک تمام قسم کی پریشانیاں جھیل کر بھی اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے قوانین واپس لینے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن جب تک عملی طور پر وہ واپس نہیں لے لیے جاتے اس وقت تک کسانوں کو یقین نہیں آئے گا۔
SEE ALSO: بھارت: ضمنی الیکشن میں نشستوں میں کمی؛ کیا بی جے پی کی حکومت مقبولیت کھو رہی ہے؟ان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ وزیرِ اعظم نے اگلے سال پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں ممکنہ شکست کے خوف سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ کیوں کہ اب تک جو بھی سروے ہوئے یا میڈیا میں جو رپورٹس آرہی ہیں ان سب میں بی جے پی کی شکست کی قیاس آرائی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی نے حال ہی میں مشرقی اترپردیش کا دورہ کیا ہے جہاں ان کی ریلیوں میں لوگوں کی بہت کم تعداد نے شرکت کی۔ شاید وزیرِ اعظم نے قوانین کی واپسی سے انتخابی فائدہ اٹھانے کے لیے یہ اعلان کیا ہے۔
ان کے خیال میں اترپردیش میں بی جے پی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر بی جے پی 2022 میں ریاست کا اسمبلی الیکشن ہار جاتی ہے تو 2024 میں پارلیمانی انتخاب جیتنا مشکل ہو جائے گا۔
ان کے مطابق اگرچہ حکومت قوانین واپس لینے جا رہی ہے لیکن آثار اس بات کے ہیں کہ اس سے بی جے پی کو الیکشن میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ عوام کی اکثریت نے اس کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
زرعی قوانین کیا ہیں؟
بھارت کی پارلیمان نے اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باوجود گزشتہ برس ستمبر میں زرعی اصلاحات سے متعلق تین بل منظور کیے تھے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے نئی اصلاحات کو بھارت میں زرعی شعبے کی بہتری کے لیے سنگِ میل قرار دیا تھا جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے کسانوں کے حقوق پر ڈاکہ قرار دیا تھا۔
زرعی قوانین کے ذریعے زراعت میں نجی شعبے کے کردار کو بڑھایا گیا جب کہ حکومت کا کہنا تھا کہ اس سے کسان اپنی اجناس آزادانہ طور پر کھلی منڈیوں میں فروخت کر سکیں گے۔
زرعی اصلاحات کے تحت نجی شعبے کو اجازت دی گئی کہ وہ ضروری اجناس کسانوں سے خرید کر مستقبل میں فروخت کے لیے ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ جب کہ اس سے قبل یہ حکومت خود کرتی تھی۔
نئے قوانین میں 'کنٹریکٹ فارمنگ' کی اصطلاح بھی متعارف کرائی گئی تھی جس میں خریدار کی ڈیمانڈ کے مطابق کاشت کار اجناس کاشت کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان اصلاحات سے اجناس کی فروخت، قیمت کے تعین اور ذخیرہ کرنے کے موجودہ قوانین کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔
سب سے بڑی تبدیلی یہ کی گئی کہ کسان اپنی اجناس مارکیٹ پرائس پر زرعی کاروبار سے وابستہ افراد، بڑے سپر اسٹورز اور آن لائن گروسری اسٹورز کو فروخت کر سکیں گے۔
دوسری جانب کسانوں کا مؤقف ہے کہ زرعی قوانین ان کے مفادات کے خلاف ہیں اس لیے حکومت انہیں فوری واپس لے۔ اس ضمن میں کسانوں نے کئی بار ملک گیر ہڑتال کی۔ ان ہڑتالوں کا سب سے زیادہ اثر پنجاب، ہریانہ، بہار، مغربی اتر پردیش، مغربی بنگال، کیرالہ اور اڑیسہ میں نظر آیا۔
ان ہڑتالوں، احتجاج اور مظاہروں کے دوران کسان تنظیموں اور حکومت کے درمیان مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کے ایک درجن سے زائد ادوار ہوئے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔