سہیل انجم
وزیر اعظم نریند رمودی کی جانب سے گجرات کی انتخابی مہم میں پاکستان کو گھسیٹ لیے جانے کے بعد دہلی اور گجرات میں سیاسی حدت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
مودی نے اتوار کے روز ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ کانگریس نے بی جے پی کو شکست دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ ساز باز کر لی ہے۔
انہوں نے کوئی ثبوت پیش کیے بغیر یہ دعویٰ کیا کہ منی شنکر ایر کے گھر میں تین گھنٹے تک ایک خفیہ میٹنگ چلی جس میں پاکستان کے ہائی کمشنر، وہاں کے سابق وزیر خارجہ، سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سابق نائب صدر حامد انصاری نے شرکت کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے گجرات میں’ بی جے پی کی جیت کو روکنے کے لیے‘کانگریس اور پاکستان میں موجود عناصر کے مابین ملی بھگت کا الزام لگایا تھا۔
اس الزام پر پاکستان نے پیر کے روز شديد رد عمل ظاہر کیا ہے۔
کانگریس نے بھی مودی کے الزام پر شديد تنقید کی۔ پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے سوال کیا کہ کیا وزیر اعظم مودی پاکستان میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ’ در اصل پاکستان سے ساز باز بی جے پی نے کر رکھی ہے۔ بی جے پی حکومت نے ہی پٹھان کوٹ ایئر بیس پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اہل کاروں کو ایئر بیس کا دورہ کرنے کی اجازت دی تھی‘۔
سینیر کانگریس لیڈر آنند شرما نے مذکورہ میٹنگ کے بارے میں کہا کہ وہ محض ایک ڈنر تھا اور کیا اب اس کے لیے بھی اجازت لینی پڑے گی۔ انہوں نے وزیر اعظم کے الزام کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے ان سے معافى مانگنے کا مطالبہ کیا۔
کانگریس کے مطابق وزیر اعظم جس میٹنگ کو خفیہ قرار دے رہے ہیں اس میں سابق اور موجودہ سفارت کار، سیاست دان اور صحافي شامل تھے۔ ڈنر کے شرکا نے بھی اس کی ترديد کی کہ میٹنگ میں ملکی سیاست پر کوئی گفتگو ہوئی تھی۔ ان کے مطابق اس میں صرف بھارت پاک تعلقات پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔
میٹنگ میں سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ، سابق نائب صدر حامد انصاری، سابق وزیر نٹور سنگھ، سابق سفارت کار سلمان حیدر، پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، سابق آرمی چیف جنرل دیپک کپور اور پریم شنکر جھا جیسے صحافی سمیت متعدد افراد بھی موجود تھے۔
اسی درمیان مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے پاکستان کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’ وہ ہمیں سبق نہ سکھائے۔ ہمیں اپنی جمہوریت پر فخر ہے‘۔
ایک سینیر تجزیہ کار پروفیسر اپوروانند نے وزیر اعظم کے بیان کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیا اور وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے گجرات کے وزیر اعلی کی حیثیت سے 2007 میں بھی اسی طرح الیکشن لڑا تھا اور اس میں مشرف کو للکارا تھا جیسے کہ وہ پاکستان میں الیکشن لڑ رہے ہوں۔ وہ پھر اسی سطح پر اتر آئے ہیں۔ یہ ہندوستان کے لیے بہت خطرناک بات ہے۔ ایک وزیر اعظم کی حیثیت سے انہیں پاکستان کے ساتھ بات کرنی ہی پڑے گی۔ اس قسم کے بیانات سے وہ ایک طرح ہندوستان کو بھی مشکلات میں ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا یہ کہنا کہ راہل گاندھی بابری مسجد کی طرف ہیں کہ مندر کی طرف ہیں۔ وہ ہندو ہیں یا نہیں ہیں۔ احمد پٹیل کو پاکستان گجرات کا وزیر اعلیٰ بنوانا چاہتا ہے۔ وہ اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں جو بہت ہی سطحی ہیں۔ اس طرح وہ ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کا خوف بٹھانا چاہ رہے ہیں جو بہت ہی افسوسناک ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی نریندر مودی انتخابات کے دوران پاکستان کا بار بار ذکر کرتے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق’ اس طرح وہ انتخابي مہم کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے سیاسی اور انتخابي فائدہ اٹھایا جا سکے‘۔
اسی درمیان بی جے پی لیڈر اور رکن پارلیمنٹ شتروگھن سنہا نے بھی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت کی اور ان سے اپیل کی کہ وہ الیکشن جیتنے کی خاطر ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے گریز کریں اور تعمیری سیاست کریں۔
واضح رہے کہ گجرات انتخابات میں بی جے پی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے اور وزیر اعظم مودی کسی بھی قیمت پر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ اس الیکشن میں ان کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔