پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد بھارت کے بعض سیاسی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا پٹھان کوٹ اور پُلوامہ حملوں سے پیدا شدہ تلخیوں کو بھلانے کا وقت آگیا ہے اور کیا اب دونوں ملکوں کے تعلقات میں منجمد برف کے پگھلنے کی اُمید کی جاسکتی ہے؟
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پاکستان کے ہم منصب شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ وزیرِ اعظم مودی کا یہ عمل بعض سیاسی اور سفارتی حلقوں کے نزدیک دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کے خاتمے کا نقطۂ آغاز ہو سکتا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی کا پاکستان کے نئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو مبارک باد کا پیغام ایسے موقع پر بھیجا گیاجب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تعطل کا شکار ہیں۔
سابق وزیرِا عظم پاکستان عمران خان اپنے بھارتی ہم منصب پر ماضی میں شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور وہ انہیں ہٹلر سے تشبہیہ بھی دیتے تھے۔ تاہم پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دونوں ملکوں کو قریب آنے کا موقع ملے گا۔لیکن سیاسی مبصرین وزیرِ اعظم مودی کے تہنیتی پیغام کو ایک روایتی رسم کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
تجزیہ کار اور صحافی ارون جوشی کہتے ہیں پاکستانی وزیرِاعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ ضرور کہاہے کہ پاکستان بھارت سے امن اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس سلسلے میں ممکنہ پیش رفت کو کشمیر سمیت باقی تنازعات کے حل سے مشروط کردیا ہے۔ لہٰذا وہ اس حوالے سے زیادہ پُر امید نہیں ہیں۔
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبۂ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمدبابا بھی سمجھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق دو اچھے ہمسائے جیسے ہوں۔ اس کے لیے مسئلہ کشمیر کا پُرامن دائمی حل ناگزیر ضرور ہے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر پر متضاد اور یکسر مختلف مؤقف رکھتے ہیں۔ اگر دونوں ملک واقعی آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں کشمیر کے مسئلے کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حل کرنا ہو گا لیکن کشمیر کو معرضِ التوا میں ڈالنا داخلی و سیاسی وجوہات کی بنا پر دونوں ملکوں کے لیے ممکن نہیں۔
ڈاکٹر نور احمد کے مطابق کشمیر کےلوگ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے زیادہ پُر امید نہیں ہیں۔
پلوامہ حملہ تیزی سے بدلتی صورتِ حال کا سبب بنا
پانچ اگست 2019 کے بعد سےبھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیمیں غیر فعالیت کا شکار ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان جماعتوں کی اعلیٰ قیادت یا تو جیلوں میں بند ہے یا پھر انہیں نظر بند کردیا گیا ہے۔
دوسرے درجے کی قیادت پر طرح طرح کی پابندیاں عائد ہیں اور نتیجتاً عام کارکن خوف زدہ ہے یا پھر بہت زیادہ محتاط ہے۔ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ نریندر مودی حکومت نے کشمیری علیحدگی پسند قیادت اور جماعتوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نریندر مودی حکومت کے سخت گیر اقدامات کے لیے زمین پُلوامہ حملے نے ہموار کی تھی جس کے بعد سے بھارتی کشمیر میں سیکیورٹی آپریشنز میں تیزی آئی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے۔
حال ہی میں بھارت اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے دوران بھی پلوامہ حملے کی گونج سنائی دی تھی۔ بھارت ان حملوں کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے لیکن پاکستان کے دفتر خارجہ نے بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ14 فروری 2019 کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں لیت پورہ ہائی وے پر دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک کاربھارتی نیم فوجی دستے (سی آر پی ایف) کے اہلکاروں سے بھری ایک بس سے جا ٹکرائی تھی جس کے نتیجے میں 40 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم مسلح گروپ جیش محمد نے تسلیم کی جس کے بعد بھارت نےحملے کی منصوبہ سازی کے لیے براہِ راست پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
پلوامہ حملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی سی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔ بھارتی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں فضائی بمباری کر کے جیش محمد کی تربیت گاہ کو تباہ کرنے اور سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم پاکستان نے بھارتی دعووں کی تردید کی تھی۔
بعدازاں پاکستان نے جوابی کارروائی کی جس کے دوران بھارتی فضائیہ کا ایک طیارہ گر کر تباہ ہوا اور اس کا پائلٹ ابھینندن بھی پاکستان میں قید ہوا جسے چند روز بعد واپس بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان یہ محاذ آرائی ایسے موقع پر ہوئی تھی جب بھارت میں عام انتخابات ہونے والے تھے جس کا بھرپور فائدہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوا۔