مودی کی مسلم مخالف بیانات سے گریز کی اپیل

فائل

مودی نے اپنے ساتھیوں کو مشوہ دیا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں مسلمان اقلیت اور لبرل طبقوں کے خلاف بیان بازی کے بجائے اپنی توجہ تعمیر و ترقی سے متعلق امور پر مرکوز رکھیں۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے اپنے بعض ساتھیوں کے مسلم مخالف بیانات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

ہندو قوم پرست جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' کے رہنما اور ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ مودی نے اپنے ساتھیوں کو مشوہ دیا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں مسلمان اقلیت اور لبرل طبقوں کے خلاف بیان بازی کے بجائے اپنی توجہ تعمیر و ترقی سے متعلق امور پر مرکوز رکھیں۔

خیال رہے کہ مودی کی گجرات حکومت کی معاشی پالیسیوں کو بھارت میں "مثالی" تصور کیا جاتا ہے اور بھارت میں جاری عام انتخابات کے دوران انہوں نے ملکی معیشت کی بحالی کو اپنا بنیادی ہدف قرار دیا ہے۔

تاہم پانچ ہفتوں پر مشتمل انتخابی مہم کے دوران 'بی جے پی' اور اس کی سخت گیر ہندو قوم پرست اتحادی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کی جانب سے ایسے متنازع بیانات سامنے آئے ہیں جنہیں لبرل بھارتی حلقے فرقہ ورانہ اور رائے عامہ کو تقسیم کرنے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

منگل کو 'ٹوئٹر' پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں نریندر مودی نے کہا ہے کہ خود کو 'بی جے پی' کا خیر خواہ گرداننے والے بعض افراد چھوٹے چھوٹے معاملات پر بیان بازی کرکے انتخابی مہم کا رخ ترقی اور بہتر طرزِ حکمرانی جیسے مرکزی معاملات سے موڑ رہے ہیں۔

بیان میں نریندر مودی نے کہا ہے کہ وہ ایسے بیانات کو ناپسند کرتے ہیں اور یہ بیانات دینے والے افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔

گزشتہ ہفتے بھارتی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما گری راج سنگھ نے کہا تھا کہ جو لوگ مودی کی مخالفت کر رہے ہیں وہ 'بی جے پی' کی انتخابات میں کامیابی اور حکومت میں آنے کے بعد بھارت چھوڑ کر پاکستان جانے کی تیاری کریں۔

اس بیان کے دو روز بھارتی ٹی وی چینلوں نے 'بی جے پی' کی برادر تنظیم 'ویشوا ہندو پریشد' کے ایک رہنما پراوین توگاڈیا کی ایک ویڈیو نشر کی تھی جس میں وہ ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو جائیداد خریدنے سے روکنے کی تجاویز پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے ان متنازع بیانات کے بعد بھارت کے سیکولر حلقوں اور اقلیتی گروہوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور کئی مسلمان رہنما 'بے جی پی' کی انتخابات میں کامیابی اور مودی کے وزیرِاعظم بننے کے بعد مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق خدشات کااظہار کر رہے ہیں۔

خود مودی پر بھی 2002ء میں گجرات میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کو بڑھاوا دینے اور انہیں روکنے میں دلچسپی نہ لینے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں جن کی صحت سے وہ انکار کرتے ہیں۔

ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مودی ان فسادات کے وقت گجرات کے وزیرِاعلیٰ تھے.