پاکستان کی وادیٔ کاغان سے ڈھائی برس قبل مبینہ طور پر 'لاپتا' ہونے والے صحافی مدثر نارو کی اہلیہ صدف چغتائی ہفتے کو حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئیں جس کے بعد مدثر نارو کی فوری بازیابی کے مطالبے میں شدت آ گئی ہے۔
صدف چغتائی اپنے شوہر کی بازیابی مہم میں پیش پیش تھیں، تاہم اُن کے اچانک انتقال پر انسانی حقوق کی تنظیمیں، سماجی کارکن اور صحافی افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مدثر نارو کی فوری بازیابی یقینی بنائی جائے تاکہ وہ اہلیہ کے انتقال کے بعد اپنے کم سن بیٹے کی دیکھ بھال کر سکیں۔
کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں صدف کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدف نے 20 مئی کو اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے جبری گمشدگیوں کی ایک سماعت میں بھی شریک ہونا تھا، لہذٰا جن حالات میں اُن کی موت ہوئی اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
مدثر کے اہلِ خانہ کے مطابق مدثر کی اہلیہ خاوند کی گمشدگی کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔
HRCP mourns the loss of artist and activist Sadaf Chughtai, mother of a three-and-a-half-year-old son. That she spent the last three years struggling to find her husband, poet, filmmaker and journalist #MudassarNaru is a measure of the tragedy. @FindNaaruAlive pic.twitter.com/UvvjcRr1wu
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) May 8, 2021
لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی، مصنف اور نقاد مدثر نارو اگست 2018 میں لاپتا ہوئے جس کے بعد سے اب تک ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔
مدثر نارو صحافت کے علاوہ، شاعری اور ادب سے بھی لگاؤ رکھا تاہم اُنہیں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا ناقد بھی سمجھا جاتا تھا۔
اطلاعات کے مطابق مدثر نارو اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ہمراہ سیر کے لیے گئے تھے جہاں وہ ہوٹل سے باہر گئے اور اس کے بعد لاپتا ہو گئے۔
مدثر کی گمشدگی کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ شاید وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ تاہم کئی روز کی تلاش کے باوجود اُن کا کچھ پتا نہ چل سکا۔
مدثر کی اہلیہ نے بعدازاں اُن کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی اور وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا نے بھی اس معاملے کا نوٹس لے لیا۔
ان کی اہلیہ صدف چغتائی اور ان کے دوستوں نے بعدازاں اُن کی بازیابی کے لیے مہم چلائی اور مختلف مواقع پر احتجاج بھی کرتے رہے۔
مدثر نارو کی اہلیہ کے انتقال کے بعد اب پھر سوشل میڈیا پر مدثر نارو کی بازیابی کا مطالبہ کیا جا رہا ہیے جب کہ اُن کے تین سالہ بیٹے کے ساتھ اظہار ہمدردی بھی کیا جا رہا ہے۔
اس بچے کے سوالوں کا جواب کس کے پاس ہے؟ “میری ماما کہاں ہیں؟ میرے بابا کب آئیں گے؟” مدثر محمود نارو اور صدف چغتائی کا ساڑھے تین سالہ بیٹا سچل۔نارو تین سال سے لاپتہ ہے اور صدف چغتائی در بدر کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے اس جہاں سے رخصت ہوگئی۔ @FindNaaruAlive pic.twitter.com/OXzyWfpLfZ
— Shiraz Hassan (@ShirazHassan) May 8, 2021
سماجی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری نے ٹوئٹ کی کہ مدثر کے والد نے رواں برس فروری میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے اُن کی بازیابی کے لیے رُجوع کیا۔
اُن کے بقول اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارتِ داخلہ اور دفاع کو 10 روز کے اندر جواب داخل کرنے کا نوٹس بھیجا، لیکن کسی نے جواب داخل نہیں کرایا۔
ایمان مزاری کے بقول چار مئی کو سماعت کے دوران وزارتِ دفاع نے جواب داخل کرایا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس نے بتایا ہے کہ مذکورہ شخص اُن کی تحویل میں نہیں ہے۔
Case was last fixed on 4 May. Ministry of Interior had not come prepared & Ministry of Defence submitted that "ISI & MI have informed that the said missing person is not held in their custody". Mudassar Naaru%27s wife, Sadaf Chugtai, passed away today, leaving behind their son 4/7
— Imaan Zainab Mazari-Hazir (@ImaanZHazir) May 8, 2021
سماجی کارکن اور صحافی رابعہ محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدف چغتائی اور مدثر کے اہلِ خانہ پر یہ دباؤ تھا کہ وہ مدثر کے معاملے کو اقوامِ متحدہ کے کمیشن کے سامنے نہ اُٹھائیں۔
اُن کے بقول مدثر کی گمشدگی کے بعد جب صدف نے اس معاملے کو اُٹھایا تو اُنہیں بھی ابتدا میں ہراساں کیا گیا۔
معروف گلوکار شہزاد رائے نے ٹوئٹ کی کہ مدثر کا کم سن بیٹا اب اس دنیا میں اکیلا ہے اور اپنے والد کا انتظار کر رہا ہے۔
#sachl is waiting for his father #MudassarNaaru 🙏 @ShireenMazari1
— Shehzad Roy (@ShehzadRoy) May 9, 2021
سماجی کارکن ندا کرمانی نے ٹوئٹ کی کہ صدف ایک باہمت خاتون تھیں جو دو برس سے اپنے لاپتا شوہر کی بازیابی کے لیے مہم چلا رہی تھیں۔ مدثر اور اُن کے اہلِ خانہ انصاف کو انصاف ملنا چاہیے۔
So tragic. I met Sadaf a few times, a bright young artist with a kind heart. She was struggling to find her husband who has been missing for the last few years. Hope the truth about she and Naaru comes to light soon. They & their families deserve justice. https://t.co/HQYho7icQc
— Nida Kirmani (@NidaKirmani) May 8, 2021
پاکستان کی حکومت جبری گمشدگیوں کے اکثر معاملات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی ہے۔
حال ہی میں پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا تھا کہ کابینہ کی کمیٹی برائے قانون نے جبری گمشدگی کو مجرمانہ فعل قرار دینے کا قانون منظور کر لیا ہے جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق شکایات کا ازالہ ہو گا۔